سوال (3425)

جو ہم صبح و شام کے اذکار میں “اللهم بک اصبحنا و بک امسینا و الی” دعا پڑھتے ہیں، اس کے آخر میں صبح “و الیک النشور” پڑھنا ہے یا “و الیک المصیر” یا یہ ایک دوسرے کی جگہ پڑھ سکتے ہیں، اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب

دین اسلام نے جن الفاظ کے بارے میں کہا ہے کہ اس جگہ اور اس طرح یہ الفاظ پڑھنے چاہییں، اس طرح وہ الفاظ پڑھنا چاہییں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو دعا سیکھائی تھی، اس میں الفاظ تھے، “آمنت باالنبیك الذی ارسلت” جب صحابی نے دعا یاد کرکے سنائی تھی تو نبی کے بجائے رسول کے الفاظ کہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ کہیں جو میں نے آپ کو سیکھایا اور بتایا تھا، قصداً و ارادتاً ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ الفاظ آگے پیچھے ہو جائیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم اس کی وضاحت فرما دیں کہ صبح کے وقت کونسے الفاظ ہیں اور شام کے وقت کونسے الفاظ ہیں، کیونکہ حصن المسلم کے نسخوں میں ایک دوسرے کی جگہ لکھے گئے ہیں، اس لیے وضاحت فرما دیں۔
جواب: صبح کے لیے “اصبحنا” اور شام کے لیے “امسينا” ہے، صبح کے الفاظ میں “إليه النشور” ہے اور شام کے الفاظ میں “إليه المصير” ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُ أَصْحَابَهُ يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ وَإِذَا أَمْسَى فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ النُّشُورُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ [جامع ترمذی ، حدیث نمبر: 3391]

شیخ محترم سنن ترمذی میں اس کے الٹ ہے۔

جواب: امام ابن قیم اور دیگر علماء نے اس روایت کو زیادہ صحیح کہا ہے، جس میں صبح کے الفاظ میں “إليه النشور” ہے اور شام کے الفاظ میں “إليه المصير” ہے ۔ کیونکہ اس کے راوی اثبت ہیں، تعداد میں زیادہ ہیں، اس وجہ سے اس روایت کو ترجیح حاصل ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ