سوال (5628)
میرا دوست ہے، اس کی صابن کی فیکٹری ہے، اب اس کے مالی حالات کمزروی ہیں، اس مالک نے تیسرے بندے سے بات کی ہے کہ آپ مجھے دس لاکھ دو، میں آپ کو صابن کے ایک کلو پر ڈیڑھ روپیہ دوں گا، اس پیسوں سے میٹیریل لاؤں گا، مہینے کے آخر میں جو مال نکلا ہے، اس حساب سے ڈیڑھ روپیہ دوں گا، اس کو خود کو کلو کے پیچھے آٹھ سے دس روپے بچیں گے، اس میں سے ڈیڑھ روپے اس پیسے والے کو دے گا، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب
گویا کہ کاروباری شکل ہے، دینے والا دس لاکھ روپے دے کر کاروبار میں شراکت چاہتا ہے، اور وہ اسے شریک کرنا چاہتا ہے، تو یہ بات تو صحیح ہو گئی۔ البتہ اس کا نفع میں فکس کر کے پیسے لوٹانا، ڈیڑھ روپے فی صابن، فی کلو، یا فی مہینہ جو بھی آمدنی ہو، ٹوٹل آمدنی میں جو نفع ہوگا، اس نفع پر میں آپ کو پانچ فیصد، دو فیصد، دس فیصد، جو بھی ان کا آپس میں طے پا جائے، تو فیصدی تناسب طے ہو جائے گا، پرسنٹیج طے ہو جائے گی۔ تو وہ اوپر نیچے پیسے ہوتے رہیں گے، کبھی کم اور کبھی زیادہ۔ تو یہ طریقہ کار درست ہے۔ پیسے فکس نہ کریں پرافٹ کے طور پر۔ ممکن ہے کہ کبھی پیسے اوپر چلے جائیں اور کبھی نیچے ہو جائیں۔ تو یہ فکس کرنا پیسوں کا، یہ صحیح نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ