سوال (2046)

صدقہ کی رقم رکھی ہوئی تھی، علاقے میں قبرستان کی ضرورت ہے، کیا یہ رقم اس میں لگائی جا سکتی ہے؟

جواب

اس حوالے سے مال کی تین صورتیں ہیں:
1۔ زکاۃ کا مال.. اس کے تو قرآن کریم متعین آٹھ مصارف ہیں.. وہ ان کے علاوہ کہیں اور خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس میں قبرستان وغیرہ جیسے رفاہی کام نہیں آتے۔
2۔ دوسری صورت ہے ایسے صدقات جن کا مصرف شریعت میں بتا دیا گیا ہے، جیسا کہ قسم کا کفارہ کہ اس میں گردن آزاد کروانا یا مساکین کو کھانا کھلانا یا لباس لے کر دینا ہے، یا کوئی خاص نذر مان لیتا ہے، ایسے صدقات بھی انہیں متعین مدات میں ہی خرچ کرنا ضروری ہیں، انہیں کسی اور خیر کے کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
3۔ تیسری صورت ہے، عام صدقات جس کا کوئی مصرف متعین نہ شریعت نے کیا ہے اور نہ ہی صدقہ کرنے والا اس صدقہ کی نیت کرتے ہوئے اس کا کوئی خاص مصرف متعین کرتا ہے۔ مثلا کوئی شخص یا نیت کرتا ہے کہ میں اللہ کے رستے میں اتنے لاکھ روپیہ دوں گا۔ اب اس کا کوئی مصرف متعین نہیں ہے۔ ایسے مال کو کسی بھی خیر کے کام میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ انہیں میں سے ایک قبرستان کی تعمیر بھی ہے۔
سائل ان تینوں صورتوں کو سامنے رکھ کر دیکھ سکتا ہے کہ اس کے پاس جو صدقہ کا مال ہے، وہ کس قسم سے تعلق رکھتا ہے، اگر تو وہ پہلی دو صورتیں ہیں تو انہیں قبرستان پر خرچ کرنا جائز نہیں اور اگر تیسری صورت ہے، تو پھر جائز ہے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ