سوال           (115)

شیخ صاحب سوال یہ ہے کہ میں سفر میں تھا اور ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکا ہوں ، اب میں اپنے گھر پہنچا تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ اب ظہر کی کتنی رکعتیں ادا کروں گا ؟

جواب

سفر میں قصر کرنا یہ رخصت ہے  ، عزیمت نہیں ہے ، رخصت پر عمل کرنا اولی اور افضل ہے ، البتہ رخصت کا فائدہ رخصت کے اوقات میں ہی اٹھایا جائے گا ، گھر آنے کے بعد نہیں ، اگر آپ راستے میں پڑھ لیتے تو آپ قصر کرتے ، اب آپ گھر آگئے ہیں ، اس فریضے کو مکمل ادا کریں گے ، لھذا آپ ظہر چار رکعات ادا کریں گے ، یا سنتوں کے ساتھ ادا کرلیں ، قصر بہرحال سفر کے لیے ہے ، سفر سے آنے کے بعد نماز پوری ہے۔

دوران سفر جو نمازیں آئیں گی وہ قصر ہونگی ، جب آپ کسی منزل پر پہنچ گئے ہو آپ کا گھر نہیں ہے آپ پردیسی ہیں ، وہاں بھی آپ قصر کریں گے ، راستے میں جب آپ واپس آئے پھر نماز قصر ہوگئی ، اب آپ نے وہاں نہیں پڑھی جو آپ کو کرنا تھا ، اب آپ گھر آکے نماز پوری پڑھیں گے کیونکہ آپ نے ایک چیز سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سفر میں جو نماز رہ گئی وہ حضر میں قصر پڑھے گا ۔  اس مسئلے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے ، لیکن راجح یہی ہے ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

 فتاوی اصحاب الحدیث میں ہے کہ جو نماز سفر والی رہ گئی تھی ، گھر آکر پڑھیں گے تو قصر کریں گے
جیسی فرض ہوئی تھی ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ بھی یہی فتوی دیا کرتے تھے ، جو نیچے مشائخ نے بیان فرمایا ہے کہ جو نماز جس حالت میں قضا ہوئی ہے، اس کی ادا بھی اسی طرح ہوگی ۔

یعنی اگر ظہر کا وقت سفر میں گزر گیا تھا تو حضر میں بھی قصر ہے اور اگر کسی نماز کا وقت حضر میں گزرا تو سفر میں بھی پوری پڑھنی پڑے گی۔      والقضاء يحكي الأداء!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ