سوال (2871)

کیا سفر میں قصر کرنا ضروری ہے؟ اگر کوئی پوری نماز پڑھے اس کے لیے کیا حکم ہے؟ رخصتوں پر عمل ضروری ہوتا ہے؟

جواب

شریعت نے جن معاملات میں رخصت دی ہے، ان میں عمل کرنا جائز ہے، کوئی حرج نہیں ہے، تاہم کوئی شخص رخصت پر عمل نہ کرے، اصل پر عمل کرے، تب بھی ٹھیک ہے، جیسا کہ مسافر کو روزے کے بارے میں اجازت ہے، چاہے روزہ رکھے یا نہ رکھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے بہت سارے مواقع پر روزے رکھے ہیں، ایک ہی سفر میں کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہیں، کچھ نےنہیں رکھے ہیں، کسی نے بھی ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کیا ہے، نماز اور روزہ دونوں فرض ہیں، اسلام کی بنیاد ہیں، سفر میں قصر کی اجازت ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوةِ ‌ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنَكُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌” [سورة النساء : 104]

«تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کر لو، اگر ڈرو کہ تمہیں وہ لوگ فتنے میں ڈال دیں گے جنہوں نے کفر کیا»
اس سے معلوم ہوا کہ قصر کی اجازت ہے، علماء محققین کا فتویٰ یہی ہے کہ قصر کرنا فرض نہیں ہے، رخصت ہے، اس لیے مسافر چاہے تو قصر کرلے، چاہے تو پوری نماز پڑھ لے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

قصر نماز کا تعلق رخصت کے ساتھ ہے، رخصت بھی شریعت کا حکم ہے اور عزیمت بھی، اب یہ مکلف کے اختیار میں ہے کہ وہ کس کو اختیار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ “فقه الاختيار” کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
امام شاطبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے الموافقات میں دونوں کے الگ الگ فضائل ذکر کیے ہیں۔ معاصرین میں سے دکتور النملہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب المهذب في أصول فقه المقارن میں یہ بات سمجھائی ہے کہ ہمیں ان دونوں کے تفاضل میں نہیں پڑنا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں:

“والحق عندي-والله أعلم- أنه لا تفضل الرخصة على العزيمة، ولا العزيمة على الرخصة…”.

لہذا آپ کو اختیار ہے کہ آپ قصر کر لیں اگر آپ واقعی مسافر ہیں یا پھر آپ مقیم کی طرح مکمل نماز پڑھ لیں۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ