سفر نامہ رسول اللہ ﷺ
قارئین کرام! رسول اکرمﷺ نے اپنی پاکیزہ زندگی میں بہت سے سفر کیے جن میں سے بعض ذاتی ،بعض دعوت و جہاد کے سفر شامل ہیں آ پ ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر جہاں اہل سیر نے قلم اٹھایا وہیں ضروری ہے کہ آپﷺ کی زندگی کہ اس پہلو پر بھی قلم اٹھایا جائے تاکہ آپﷺ کی سیرت سے محبت کرنے والوں سے آپﷺ کی زندگی کا یہ پہلو بھی مخفی نہ رہے
آئیے! قارئین کرام رسول اکرمﷺ کا مختصر سفر نامہ ملاحظہ فرمائیں ۔
1سفر ولادت
آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں شعب بن ہاشم میں 9 ربیع الاول سنہ عام الفیل بروز پیر پیدا ہوئے اس وقت نوشیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا اور 20 یا 22 اپریل 571ء کی تاریخ تھی۔
2 سفر بنو سعد
جس وقت رسول اکرمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت کا یہ معمول تھا کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو شہری امراض سے دور رکھنے، جسم کو طاقتور کرنے اور خالص عربی زبان سیکھنے کی غرض سے دیہاتی عورتوں کے حوالے کرتے کہ وہ انہیں دودھ پلائیں اور پھر ان خواتین کو اس کا معاوضہ دیا جاتا۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے بعد کے ایام میں قبیلہ بنو سعد کی کچھ خواتین ایسے بچوں کو گود لینے کی غرض سے مکہ آ ئیں تو ان میں ایک خاتون حلیمہ سعدیہ کو کسی بڑے گھرانے کا بچہ گود نہ مل سکا تو انہوں نے مجبوراََ ایک یتیم کو اٹھا لیا یہی یتیم بچہ بڑا ہو کر اللہ کا آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ بنے۔ بعد میں آپ کی وجہ سے بنو سعد میں جو برکات نازل ہوئیں ان سے دنیا بخوبی واقف ہے ۔
آپ کل چار یا پانچ سال بنو سعد میں رہے پھر آپ کی رضاعی والدہ نے آپ کو آپکی والدہ کے حوالے کردیا ۔
3 چچا کی معیت میں شام کا سفر
آپ کی عمر مبارک جب کم و بیش بارہ برس کی ہوئی تب آپ اپنے چچا سردار ابو طالب کے ساتھ شام کے سفر پر نکلے جب آپ بصری حوران کے مرکزی شہر میں پہنچے تو ایک راہب کے مشورے پر آپﷺ کو آپ کے چچا نے بعض غلاموں کی معیت میں مکہ واپس بھیج دیا۔
4 سفر تجارت
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ: عرب میں تجارت کا ایک قائدہ ہوتا تھا کہ جن کے پاس دولت ہوتی تھی وہ روپیہ دیتے تھے اور دوسرے محنتی لوگ جن کے پاس تجارت کرنے کا سلیقہ ہوتا تھا اس پیسے کو لیکر تجارت میں لگاتے تھے آپﷺ نے بھی اسی طریقہ پر تجارت شروع کی عرب میں خدیجہ نامی ایک عورت تھی جو اپنا مال لوگوں کے ذریعے بھیجا کرتی تھیں جب انکو آپ کی ایمانداری اور سچائی کا علم ہوا تو آپﷺ کو اپنا مال تجارت کے لئے دیدیا اور اپنے ایک غلام میسرہ کو بھی
ساتھ بھیجا اس تجارت سے بہت نفع حاصل ہوا جس نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بہت خوش کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ کو پیغامِ نکاح بھیج دیا اور کچھ دن بعد نہایت سادگی اور بے تکلفی سے یہ تقریب انجام پائی۔
5 سفر معراج
اہل سیر اس سال کو عام الحزن کے نام سے لکھتے ہیں کیونکہ اسی سال آپ ﷺ کے چچا اور غمخوار بیوی کا انتقال ہوا تھا ایسے موقع پر اللہ رب العالمین اپنے محبوب کا ڈھارس بندھانا چاہتے تھے تو آپ ﷺ کو معراج پر بلوایا آپﷺ کے لئے برّاق کی سواری بھیجی گئی جس پر سوار ہوکر آپﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا وہاں ہر نبی سے ملاوات ہوئی اور ان کی امامت کا شرف بھی حاصل ہوا جنت اور جہنم کی سیر کروائی گئی اور نماز جیسے اہم فریضے کا ہدیا بھی ملا پھرآپﷺ بخیریت مکہ واپس آگئے۔
6 سفر ہجرت
جب آپ ﷺ او رآپ کے اصحاب پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے تو اللہ کی طرف سے آپ کو ہجرت کی اجازت مل گئی آپ ﷺ اپنے پیارے دوست سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سا تھ لیکر عازم ِمدینہ ہوئےکفار کی طرف سے آپ کا گھیراؤ کیا گیا آ پ کے سر کی قیمت لگائی گئی اور نعوذباللہ آ پ کو قتل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اللہ نے آ پ کو اپنے حفظ و امان مین رکھا اور بخیر و عافیت مکہ پہنچ گئے آپ نے ابتدائی قیام قبا میں کیا علّامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کے مطابق آپ نے قبا میں کل چار دن یا دس دن یا پہنچنے اور روانگی کے علاوہ چوبیس دن قیام کیا اور انہیں دنوں مسجد قبا کی بنیا رکھی جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے پھر آپ ﷺ نے مدینہ منوّرہ میں قدم رکھا تو ہر شخص آپ کو اپنے گھر کا مہمان بنانے کا متمنّی تھا لیکن یہ شرف سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا یہاں آپ نے جو بنیادی کام کیا ان میں مسجد نبوی کی بنیاد رکھنا سرِ فہرست ہے۔
7 سفر غزوہ ابواء
یہ ایک مہم تھی جس کے لئے نبی اکرم ﷺ بذاتِ خود صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے مدینہ منورہ میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا مہم کا مقصد قریش کے ایک قا فلے کی راہ روکنا تھی آپﷺ مقام ودان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا اس غزوہ میں آپﷺ نے بنو صخرہ کے سردار عمرو بن مخشی سے حلیفانہ معاہدہ کیا تھا۔ (الرحیق المختوم ۲۷۱)
8 سفر غزوہ بواط
اس مہم میں رسول اکرم ﷺ دوسو صحابہ کو ہمراہ لیکر روانہ ہوئے مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیّہ بن خلف سمیت قریش کے سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے آپ ﷺ رضویٰ کے اطراف میں بواط تک تشریف لے گئے لیکن کوئی معاملہ پیش نہیں آیا اس غزوہ کے دوران سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا امیر مقرر کیا گیا پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ (الرحیق المختوم ۲۷۲)
9 سفرِ ذی العشیرہ
یہ مہم جمادی الاولی و جمادی الآ خرہ 2 ھجری کو پیش آئی اس مہم میں رسول اکرمﷺ کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین ساتھ تھے لیکن آپ نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا سواری کے لئے صرف تیس اونٹ تھے اس لئے لوگ باری باری اس پر سوار ہوتے تھے مقصد قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملکِ شام جارہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکّہ سے چل چکا تھا اس قافلے میں قریش کا خاصہ مال تھا آپ اس کی طلب میں نکلے اور ذو العشیرہ تک پہنچے لیکن آپ سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جاچکا تھا یہی وہ قافلہ ہے جسے نبی اکرمﷺ نے شام سے واپسی پر گرفتار کرنا چاہاتو قافلہ بچ نکلا مگر بعد میں غزوہ بدر پیش آیا۔
( الرحیق المختوم۲۷۲)
10 سفر غزوہ بدر الکبری
قریش کا مذکورہ بالاقافلہ شام سے لوٹ رہا تھا جس میں ایک ہزار اونٹ تھے جن میں کم از کم پچاس ہزار دینار اور دوسو ساڑھے باسٹھ کلو سونے کی مالیت کا سازو سامان بار کیا ہوا تھا جبکہ اس کی حفاظت کے لئے صرف چالیس آدمی تھے اہل مدینہ کے لے لئے یہ بڑا سازگار موقع تھا جبکہ اہل مکّہ کی اس سامان سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی، اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لئے مدینہ میں نبی اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ قریش کا قافلہ مال و دولت سے لدا آرہا ہے اس لئے نکل پڑو ہو سکتا ہے اللہ اسے بطورِ غنیمت تمہارے حوالے کردے آپﷺ کے ساتھ صفر تین سو سے کچھ زیادہ یعنی تین سو تیرہ یا چودہ یا سترہ افراد تھے اور پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے دوسری طرف قافلے کے نگہبان ابو سفیان کو اس بات کا ادراک ہو اتو اس نے تو ایک آدمی مکہ بھیج کر مکّہ والوں سے امداد چاہی اور اس نتیجے میں دونو ں گروہوں میں جنگ برپا ہوئی نبی اکرمﷺ نے اللہ سے مدد طلب کی اور اللہ نے بذریعہ فرشتے مومنین کی مدد کی کفّار کے سردار ابو جہل کو قتل کیا گیا مسلمانوں کے چودہ افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ قریش کے کُل ستّر آدمی واصلِ جہنّم ہوئے اور ستر قیدی ہوئے۔
(الرحیق المختوم ۲۷۹)
11 سفر غزوہ بنی مطلق
یہ غزوہ اہلِ سیر کے نزدیک 5 یا 6 ہجری کو پیش آیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی اکرم ﷺ کو اطلاع ہوئی کہ بنو مطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار آپ سے جنگ کے لئے اپنے قبیلے اور کچھ عربوں کو ساتھ لیکر آرہا ہے آپ نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ بات درست ہے چنانچہ آپ ﷺ بھی زید بن حارثہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کر کے روانہ ہوئے ادھر حارث نے بھی اسلامی لشکر کی جاسوسی کے لئے ایک آدمی روانہ کیا تھا جسے مسلمانوں نے قتل کردیا اس پر حارث کے لشکر میں اس قدر خوف و حراس پھیل گیا کہ اس کے لشکر کے لوگ بھاگ کھڑے ہوئےاور چشمہ مریسیع پر بنو مطلق آمادہ جنگ ہوئے اور کچھ دیر تیروں کا تبادلہ ہوا لیکن امام ابنِ قیّم لکھتے ہیں کہ یہ وہم ہے بلکہ چشمہ پر آپ ﷺ نے ان کے چشمے پر چھاپہ مار کر عورتوں بچوں اور مال مویشی پر قبضہ کرلیا تھا لیکن اس غزوہ میں ایک بہت اہم واقعہ پیش آیا تھا جو اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور اہل ِ ایمان کے لئے بہت بڑی پریشانی کا باعث بنا وہ واقعہ اِفک ہے۔
اس سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ کی پیاری زوجہ امّ الموٗ منین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول ﷺ کے ہمراہ تھی جب واپسی پر قافلے نے پڑائو ڈالا تو امّ المومنین قضائے حاجت کےلئے نکلیں قافلہ کو یہ معلوم نہ ہو سکا اور قافلہ چل پڑا اسپر منافقین نے دنیا کی پاکیزہ ترین عورت پر تہمت لگادی جس پر بہت دنوں تک اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ایک بہت بڑی اذیت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ پر وحی نازل کرکے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاکدامن ہونے کی دلیل نازل کی اور منافقین کے اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا۔
12سفر طائف
رسول اکرمﷺ بغرض ِ دعوت و تبلیغ طائف تشریف لے گئے یہ علاقہ مکّہ سے تقریباََ ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے جسے آپ ﷺ نے پیدل طے کیا آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے آزاد کردہ غلام سیّدنا زید بن حارثہ تھے طائف والوں نے بجائے آپﷺ کی بات ماننے کے آپ ﷺ کو تکالیف پہنچائیں آوازیں کسیں اور پتھر مارے جس سے آپ ﷺ لہو لہان ہو گئے لیکن پھر بھی آپ نے ان کو کوئی بد دعا نہیں دی بلکہ فرمایا اے اللہ! ان کو ہدایت دے یہ بے خبر ہیں اور پھر اسی طرح آپ ﷺ مکّہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے ۔
13 سفرحدیبیہ
رسول اکرم ﷺ کو مدینہ کے اندر ہی خواب دکھلایا گیا کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بیت اللہ شریف کا عمر ہ اد اکیا ہے جب آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اس خواب کی اطلاع دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس طرح نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام نے عمرہ کی تیاریاں شروع کردی ۔آپ نے یکم ذی القعدہ سن 6 ھجری پیر کے دن سیدنا ام مکتوم کو اپنا جانشین مقرر کرکے مکہ مکرمہ کے لیے اپنا رخت سفر باندھا آپ کے ساتھ چودہ پندرہ سو صحابہ کرام تھے ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے ہدی کو قلادہ پہنایا اور احرام زیب تن کیا ادھرکفار نے آپ کو روکنے کی بھر پور تیاری کرلی رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان کو ان کے ہاں یہ پیغام دے کر بھیجا ہمارا لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں ہم صرف عمرہ اداکرنا چاہتے ہیں ادھر یہ افواہ پھیل گئی کہ کفار نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے جس کا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو بڑا رنج ہوا اور آپ نے صحابہ کرام سے بیعت لینی شروع کردی کہ ہم خون ِعثمان کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے اللہ رب العالمین کو بھی یہ انداز بہت پسندآیا اور اس نے وحی نازل فرماکر اس عمل کی تائید کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ صرف ایک افوہ تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور بعد میں قریش اس بات پرامادہ ہوئے کہ مسلمان اگلےسال عمرہ ادا کرنے آئینگے اور صرف تین دن مکہ میں گزار کر واپس ہونگے اور اس طرح مسلمانوں نے اثنائے راہ میں اپنے احرام کھول دیے اور قربانی کردی اور واپس مدینہ منورہ روانہ ہوئے ۔
14 سفر غزوہ خیبر
خیبر مدینہ منورہ کے شمال میں تقریباً ایک سو کلو میل کے فاصلے پر ایک بہت بڑا شہر تھا یہاں قلعےاور کھیتیاں وغیرہ بھی تھیں۔ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ کا پورا مہینہ اور محرم کے چند دن مدینے میں قیام فرمایا پھر محرم کے باقی ایام میں خیبر کے لیے روانہ ہوئے اس غزوہ کے دوران مدینے کا انتظام سیدنا سباع بن عرفطہ اور ابن اسحاق کے بقول نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو سونپا،رسول اللہ ﷺ نے ایک راستہ بنانے والے شخص کا انتطام کیا اور خیبر کی طرف چل دیے یہاں تک کہ مسلمان خیبر پہنچ چکے لیکن اہل خیبر کو کانوں کان خبر نہ ہوئی رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے نماز فجر ادا کی ا س کے بعدمسلمان سوار ہوکر خیبر کی طرف بڑھے ادھر اہل خیبر اپنے زرعی آلا ت لیے کھیتوں کی طرف جارہے تھے کہ اچانک لشکر کو دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف بھاگے کہ اللہ کی قسم محمدﷺ لشکر سمیت آگئے یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہو۔ (صحیح البخاری 371)
پھر آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈادیکر روانہ کیا اور انہوں نے اللہ کی مدد سے خیبر فتح کیا ۔
15 سفر فتح مکہ
10رمضان المبارک سن 8 ہجری کو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے مکہ مکرمہ کا رخ کیا آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور مدینہ منورہ میں سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کومقر ر کیا آپ ﷺ اور صحابہ کرام روزے کی شدت سے تھے لیکن سفر کی شدت کی وجہ سے عسفان اور قدید کے درمیان کدید نامی چشمے پر پہنچ کر روزہ کھول دیا اور صحابہ کرام نے بھی روزا افطار کیا۔ آپ ﷺ مکہ مکرمکہ میں داخل ہوئے تو اہل مکہ لشکر اسلام کو دیکھتے ہی رہ گئے اور سوچتے رہے کہ جن کا مسلمانوںکے ساتھ ہم نے مظالم کیے اب ان کا ہمارے ساتھ پتہ نہیں کیا رویہ ہوگا ؟
رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کیا سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے کعبے کی چابی لیکر نماز اداکی اور اپنے تمام دشمنوں کو معاف کرتےہوئے فرمایا جاؤ آج کے دن تم پر کوئی مواخذہ نہیں آج تم سب آزاد ہو اس کے بعد آپ نے کعبے کی چابی عثمان بن طلحہ کو دی اور فرمایایہ ہمیشہ تیرے پاس رہے گی ۔سیدنا بلال نے کعبے کی چھت پر کھڑے ہوکر آذان دی آپ نے سیدہ ام ہانی کے گھر غسل فرماکر ان کے گھر میں بھی شکرانے کی نماز ادا کی اور نو آدمیوں کا خون رائیگاں قرار دیتے ہوئے فرمایاکہ اگر وہ کعبے کے پردے کے نیچے بھی پائے جائیں توا نہیں قتل کردیا جائے ان کے نام درج ذیل ہیں۔
1عبد العزی بن خطل
2عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح
3عکرمہ بن ابی جبل
4حارث بن نفیل بن وھب
5مقیس بن صباء
6ہبار بن اسود
7ابن ہجل کی دو لونڈیاں جوآپ ﷺ کی ہجو کیا کرتی تھیں۔
8 سارہ جو اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کی لونڈی تھی۔
ان میں سے سیدنا عکرمہ رضی اللہ رضی اللہ عنہ کو ایمان لانے کی وجہ سے معاف کردیاگیا اور جان بخشی گئی اس طرح آپ ﷺ نے بیس دن مکہ میں قیام کرنے کے بعد واپس عازم مدینہ منورہ ہوئے ۔
16 سفر تبوک
عیسائیوں کی مدینہ منورہ پر حملے کے ارادے کی خبر سن کر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اتفاق یہ ہے کہ سخت گرمی کے ایام تھے ملک میں قحط کے آثار بھی تھے مگر یہ پرجوش مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کی تازگی کا نیا موقع تھا کہ اب عرب کے چند قبیلوں سے نہیں بلکہ بڑی سلطنت کا سامنہ تھا اور سواری کا انتظام بھی تھوڑاتھا اس لیے معذور مسلمان رو رو کر عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ سفر کا سامان مہیا فرما دیں تو ساتھ چلنے کی سعادت ملے یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فوج کے لیےتین سو اونٹ پیش کیے اورآپ ﷺ نےانہیں دعادی مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اورآپ تیس ہزار کی فوج کے ساتھ مدینے سے نکلے جن میں دس دہزار سورا تھے ،تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ رومیوں کے حملے کی خبر صحیح نہیں تھی اتنا صحیح تھا کہ اسلام کی نئی قوت کے مقابلے میں غسانی رئیس دوڑ دھوپ ضرور کر رہے ہیں ۔
آپ ﷺ نے تبوک میں بیس دن قیام کیا اس قیام کا اثر یہ ہوا کہ تیس ہزار کی فوج نےآس پاس کے شہروں پر اپنا اثر ڈالے بغیر نہ رہی ۔
تبوک کا سفراس حیثیت سے کہ یہ عرب کے باہر کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک سے ٹکرانے کی سب سے بڑی کوشش تھی بہت اہم تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کی بخیرو عافیت واپسی پر مسلمان بہت خوش ہوئے۔
(رحمت عالم ازندوی 92)
17 سفر حج
ذیقعدہ 10ہجری میں ہر طرف منادی ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ اس سال حج کے ارادے سے مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں گے یہ خبر دفعتاً عرب میں یوں پھیل گئی اور سارا عرب آپ کی معیت میں حج ادا کرنے کے لیے امڈ آیا ذیقعدہ 26تاریخ کو آپ نے غسل کیا اور چادر تہہ بندباندھی اور ظہر کی نماز اداکرنے کے بعد مدینہ منورہ سے نکلے مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ذوالحلیفہ کے مقام پر رات گزاری اور دوسرے دن دوبارہ غسل فرماکر احرام باندھ کر قصوی پر سوار ہو کر عازم مکہ مکرمہ ہوئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا تو دائیں بائیں ،آگے پیچھے جہاں تک نظر کام کرتی تھی انسانوں کی کثیر تعداد نظر آتی تھی اسی طرح آپ ذوالحجہ کی 5تاریخ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے آپ نے عرفہ کے دن ایک تاریخی خطبہ دیا جسے دنیا ’’خطبہ حجۃالوداع‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے آپ نے رنگ و نسل کے فرق ، جاہلیت کے رسوم وغیرہ کو باطل قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے مال وعزت پرحملے کو حرام قرار دیا ،اور غلاموں سے اچھائی اور خیر خواہی کی نصیحت فرمائی ۔
حج سے فارغ ہوکر 14ذی الحجہ فجر کی نماز کعبہ میں پڑھ کر سارے قافلہ اپنے اپنے علاقے کو روانہ ہوئے اور آپ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے جھرمٹ میں مدینہ کی راہ لی۔
(رحمت عالم 110)
18 سفر آخرت
صفر 11ہجری کو آپﷺ کسی درمیانی تاریخ میں آدھی رات کو بقیع الغرقد تشریف لے گئے ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اس سے پہلے آپ احد کے شہداء کے قبرستان سے بھی ہو کرآئے تھے اب آپ ﷺ کی طبیعت کچھ ناساز ہونے لگی تو آپ ﷺ نے دیگر ازواج مطہرات سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں منتقل ہونے کی اجازت طلب کی اورآپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں منتقل ہوگئے ،نماز کے لیے اٹھنے کی سکت نہ رہی تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کی امامت کا حکم دیا مسلمانوں اور اپنے گھر والوں کو نیک کاموں کی تلقین کی اور جب بیماری نے زور پکڑا تو غشی طاری ہوگئی اور زبان سے بل الرفیق الاعلی کے الفاظ اداکیے اور روح پاک عالم قدس میں جا پہنچی ۔
انا للہ وإنا إلیہ راجعون
محمد سلیمان جمالی سندھ پاکستان