سوال (611)

صحابہ کے گستاخ کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ اسلام سے خارج ہوتا ہے یا نہیں؟

جواب

ایسے لوگ فاسق و فاجر تو ہیں، لیکن تکفیر کے حوالے سے یہ ہے کہ جو ایک دو صحابی کو برا بھلا کہے، اس سے متعلق اہل علم میں ایک سے زائد آراء ہیں، لیکن وہ لوگ جو عموما صحابہ کرام پر تبرا اور لعن طعن کرتے رہتے ہیں، یا سب صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں، ان کو اہل علم نے کافر قرار دیا ہے، اور یہ اس وجہ سے بھی کہ ایسے لوگوں میں اس سے بھی شدید قباحتیں ہوتی ہیں، جس کے سبب انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
پھر صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے میں بھی کئی ایک چیزیں آ جاتی ہیں، مثلا اگر کوئی کسی صحابی کی تکفیر کرتا ہے، یا ان کی عدالت و دیانت کا انکار کرتا ہے، یا بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و عصمت کے متعلق زبان درازی کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے ان کی براءت میں قرآن کریم نازل فرمایا، ایسے لوگ بالاتفاق کافر ہیں۔
صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کو گالی دینا درحقیقت صحابہ میں تو طعن ہے ہی ، شریعت، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی حکمت و اختیار میں بھی طعن ہے۔
شریعت میں طعن اس طرح کہ ہمارے لیے شریعت کےناقلین صحابہ کرام ہی تو ہیں، جب ناقل شریعت ہی مستحق شب وشتم قرار دے دیا جائے تو لوگوں کا اللہ کی شریعت سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں طعن اس طرح ہے کہ آدمی اپنےدوست کے حال پر سمجھا جاتا ہے دونوں کی قدرو منزلت کا ایک دوسرےسے اندازہ ہوتا ہے چنانچہ لوگ جب کسی کو کسی فاسق شخص کا دوست پاتے ہیں تو ان کا اس سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
مشہور حدیث ہے:
المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل
انسان اپنے دوست کےدین پر ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو دیکھ بھال کر دوست اختیار کرناچاہیے ۔
اور اللہ رب العالمین کی حکمت و اختیار میں طعن اس طرح ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے ایسے فاجر و فاسق اور کافر لوگوں کا انتخاب کیا ہے (العیاذ باللہ)۔
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کو گالی دینا اور ان سے بغض رکھنا یا ان کے کفر و فسق کا عقیدہ رکھنا، انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ