صحابہ کرامؓ تاریخ کے نہیں قرآن وحدیث کے در سے سمجھو
صحابہ کے بارے میں وہ لوگ ٹھوکر کھاتے رہیں گے جو تاریخ کی طرف سے صحابہ کے باب میں داخل ہوں گے، مسئلہ تاریخ میں بھی نہیں، مسئلہ ہمارے مطالعہ تاریخ میں ہے، اور آخری مسئلہ تجزئیے اور تبصرے کا ہے، یعنی اولا تاریخ کا مخصوص ذہنیت سے نہیں، مومنانہ ذہنیت سے مطالعہ کرنا اور پھر اس کے بعد اصل پل صراط آتی ہے، یعنی آپ نے ترجیح قرآن کو دینی ہے، نبی کے فرمان کو دینی ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا، یا ایک مورخ کی اس دور کے تناظر میں لکھی بات کو آج کے اپنے تناظر میں رکھ کے سمجھنی اور ترجیح دینی ہے؟ وہ لوگ ہمیشہ صائب و مصئون رہیں گے جو قرآنیات اور ایمانیات کے در سے صحابہ کے میدان میں داخل ہوں گے۔ صرف ایک نکتہ ذہن میں رہے تو آدمی اس نازک دریا میں ڈوبے بغیر با آسانی دوسری طرف اتر سکتا ہے۔ یہ بات کہ ان لوگوں کو اللہ نے اپنے رسول کے ہم نفس چن لیا اور اللہ ان سے راضی ہو چکا۔ صحابہ نبی نہیں تھے، نہ معصوم عن الخطا تھے، ان سے غلطیاں ہوئیں مگر ان کی اور ہماری غلطیوں میں ایک بنیادی فرق ہے، ان کی غلطیاں اللہ کی رضا کے اعلان تلے دھل گئی ہیں جبکہ ہم اسی رضا کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
ایک لڑکی جسے شہزادہ دل دے بیٹھا ہو اور منتخب کر چکا ہو، دوسری لڑکی جو ابھی منظوری و مسترد ہونے کے دوراہے پر کھڑی ہو، دونوں برابر نہیں ہو سکتیں۔ نہ دوسری لڑکی پہلی کے متعلق دنیا کو یہ کہتی اچھی لگتی ہے کہ اس میں تو فلاں فلاں عیب ہیں اور وہ اتنی خوبصورت بھی نہیں۔ نہ بھی ہو تو اسے اب کیا نقصان ہے، وہ تو قبول ہو چکی، منظوری پا چکی۔ یہ جو خود کو زیادہ حسین، زیادہ منصف مزاج اور زیادہ بے عیب بتا رہی ہے، یہ تو ابھی خود کسی مقام پر موجود نہیں، اسے تو نہ ابھی اپنی حیثیت کا پتہ ہے نہ اوقات کا اور نہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات کا۔اصل چیز قبولیت ہے۔ یہ تو دنیا کی مثال ہے، اللہ کے ہاں جو رضی اللہ عنہم و رضو عنہ کی سعادت پا چکے، ان سے لڑنا، ان سے الجھنا، گویا اللہ کے فیصلے سے پہلوانی کرنا اور خود کو اپنے مقام سے گرانا ہے۔
رہی بات یہ کہ بعض مواقع پر نبی نے انھیں ڈانٹ دیا یا اللہ نے ان کی سرزنش فرما دی تو بھی انھیں کوئی نقصان نہیں۔ باپ اگر اولاد کو ڈانٹ لے تو باہر والا جنتا بھی خوش ہو جائے، بیٹا باپ کی ولدیت یا وراثت سے نکل نہیں سکتا۔ یہ دلیل لینا کہ قرآن نے کچھ صحابہ کے بارے یہ یہ بھی فرما دیا۔ قرآن نے اگر تعیین نہیں کی تو ایسے میں تعیین کرنا خود شکنی اور آخرت سے بے خوفی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسی تعیین تو کسی عام فرد کے متعلق اسلام میں روا نہیں، مثلا کسی پر کی گئی لعنت کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر وہ مستحق لعنت نہ ہوا تو یہ لعنت خود کرنے والے پر پلٹ آئے گی۔ اب جب ایک عام مسلمان کا یہ معاملہ ہے تو صحابہ کے بارے میں اگر غلطی ہوگئی تو آخرت میں انجام ہوگا؟ سوچنا چاہیے۔ حذیفہ بن یمان نبی کے راز دار صحابی تھے، جنھیں منافقین کے نام رسول اکرم نے بتا دئیے تھے، سیدنا عمر فاروق نے ایک دفعہ ان سے پوچھا، کہیں اس فہرست میں میرا نام تو نہیں، بتایا گیا نہیں۔ یعنی اگر سیدنا عمر جیسے جلیل القدر آدمی خود کے بارے میں ایسے لرزان تھے تو ہم دوسروں کے بارے میں کیسے جری ہو سکتے ہیں؟
اصلا یہ خدا کی عطا کے معاملے ہیں، اولاد آدم میں ایک عام شخص ہوتا ہے، اللہ سے نبوت دے کر ایک عہد اور زمانے کو اس کا کلمہ پڑھوا دیتا ہے، ماننے والے مان لیتے ہیں مگر متکبر اور منکر اپنے برابر کا انسان سمجھ کے انکار کر دیتے ہیں، نقصان نہ نبی کا کچھ ہوتا ہے اور نہ اللہ کا، صحابیت بھی اللہ کی عطا ہے، جس سے حسد و بعض اپنی عقلی برتری کی بنا پر ہو یا کثرت مطالعہ کے زعم پر، یہ اللہ کی تقسیم سے حسد ہے اور الہی سسٹم سے بغاوت۔ باتیں مزید بھی کی جا سکتی ہیں، مگر سر دست سمجھنے والے ان چند سطروں سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
#یوسف_سراج
یہ بھی پڑھیں: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، امام اہلِ السنہ، احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نظر میں