“صحابہ کرام کے دفاع کے چند مؤثر اور عملی طریقے”
ذی الحجہ کے آخری دنوں اور محرم کے ابتدائی ایام میں بعض لوگ اپنی باطنی خباثت کو ظاہر کرنے کے لیے میدان میں آئیں گے، وہ انبیاء کے بعد افضل ترین جماعت، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، پر زبان درازی کریں گے، طعن و تشنیع کے تیر برسائیں گے، ارتداد کے فتوے لگائیں گے، گویا وہ خود میزانِ عدل بن گئے ہوں، کسی صحابی کو صاحبِ ایمان قرار دیں گے، تو کسی کے ایمان کا انکار کریں گے، وہ اپنی کم عقل آراء اور تعصبات کی بنیاد پر صحابہ کرام جیسے مقدس اور معزز ہستیوں کے مقام کو پرکھنے کی جسارت کریں گے، حالانکہ ان کا یہ طرزِ عمل سراسر گمراہی اور فتنہ پروری ہے۔
ان دنوں ہمیں چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتنا کثرت سے اور محبت بھرے انداز میں تذکرہ کریں کہ گلی گلی، کوچہ کوچہ صحابہ کرام کے نام جگمگا اٹھیں، اور ہر دل ان کے احترام سے منور ہو جائے، صحابہ کرام کا ذکرِ خیر اتنا مؤثر ہو کہ دلوں کی نفرتیں محبت میں بدل جائیں، اور دشمنی کے بجائے عقیدت و وفا کی فضا قائم ہو جائے، ہر دل میں صحابہ کرام کی ایسی گہری محبت پیدا ہو کہ لوگ ان کے فضائل و مناقب سننے کو بے قرار ہو جائیں، اور جب ان کی شجاعت، قربانی اور اخلاص کے واقعات بیان کیے جائیں تو سامعین کی آنکھیں خودبخود اشکبار ہو جائیں۔
اسی مقصد کے تحت میں ذیل میں صحابہ کرام کے دفاع کے چند مؤثر اور عملی طریقے پیش کر رہا ہوں تاکہ ہم اپنے حصے کا فرض بخوبی ادا کر سکیں۔
(1) “صحابہ کرام کے فضائل و مناقب بیان کرنا”
ان ایام میں علمائے کرام، خطباء اور مبلغین کی یہ اہم ذمے داری ہے کہ وہ خطباتِ جمعہ، دروس اور مجالس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کو خوب دلنشین انداز میں بیان کریں، ان مجالس کو محض رسمی نہ رکھا جائے، بلکہ ایک مستقل سلسلہ کے طور پر ترتیب دیا جائے جس میں خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کا تعارف، سیرت، اخلاص، وفاداری اور قربانیاں تفصیل سے ذکر کی جائیں۔
ان دروس میں نہ صرف ان کے ایمان و تقویٰ کو اجاگر کیا جائے بلکہ یہ بھی واضح کیا جائے کہ دینِ اسلام کی امانت ہمیں انہی مقدس ہستیوں کے ذریعے پہنچی ہے، وہ دین کے اولین راوی، عملی نمونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے۔
اگر ان کے ذہنوں میں کچھ سوالات یا اشکالات ہوں تو اُن کے مدلل انداز میں جوابات دیے جائیں، تاکہ لوگوں کے دل صحابہ کرام کی عظمت، پاکیزگی اور مقام و مرتبے کے حوالے سے مطمئن، شفاف اور محبت سے بھرپور ہو جائیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صحابہ کرام سے عقیدت و احترام کا ایک نیا جذبہ معاشرے میں پروان چڑھے گا۔
(2) “صحابہ کرام کے فضائل و مناقب پر مشتمل لٹریکچر اور کتب تقسیم کرنا”
اہلِ ثروت اور مالدار حضرات کو چاہیے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب پر مشتمل کتب و لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، خصوصاً ایسے موضوعات جن میں فضائلِ صحابہ، دفاعِ صحابہ، دین کے لیے ان کی قربانیاں، شہادتیں، مشاجراتِ صحابہ اور اُمت کے لیے صحابہ کرام کا مقام جیسے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہو، اُنہیں عوام تک عام کیا جائے۔
علمائے کرام نے ان موضوعات پر نہایت عمدہ انداز میں کتابیں، رسائل اور مضامین تحریر کیے ہیں، ان کتابوں کو خرید کر اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، مساجد، مدارس اور عام لوگوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ عام مسلمان صحابہ کرام کی عظمت، محبت اور قربانیوں سے آگاہ ہو، ایسا قدم یقیناً دلوں میں صحابہ کرام کی محبت کو زندہ کرے گا اور باطل نظریات کی بیخ کنی میں مؤثر کردار ادا کرے گا۔
(3) “صحابہ کرام کے نام بچوں پر رکھنا”
ہمارے معاشرے میں بچوں کے نام رکھنے کا رجحان دن بدن عجیب ہوتا جا رہا ہے، لوگ اپنے بچوں کے ایسے انوکھے اور غیر مانوس نام رکھتے ہیں، جن کے پس منظر میں اکثر غیر دینی شخصیات یا فلمی کردار ہوتے ہیں، جنہیں نہ دین سے کوئی نسبت ہے اور نہ کردار سے کوئی تعلق، یہ روش نہ صرف دینی شعور کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ آئندہ نسلوں کو اپنے اسلاف سے کاٹنے کا ایک سبب بھی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کے نام اُن عظیم ہستیوں کے نام پر رکھیں، جنہوں نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں پر، ان مبارک ناموں کو معاشرے میں عام کیا جائے تاکہ ہر زبان پر صحابہ کرام کے ذکر کا چرچا ہو۔
خاص طور پر اُن جلیل القدر صحابہ کے نام اپنانے کی ضرورت ہے جن پر باطل گروہ اعتراضات کرتے ہیں، جیسے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، ہمارے کردار کا تقاضا ہے کہ آج ہر گھر میں ایک معاویہ ہو، ہر خاندان میں ایک عائشہ ہو، تاکہ ہر پکارنے والا جب بھی ان ناموں کو لے، تو ان نفوسِ قدسیہ کا ذکر خیر ہو، ان کے ساتھ محبت کا رشتہ مضبوط ہو۔
یہ صرف نام نہیں ہوں گے، بلکہ عقیدت، وفاداری اور صحابہ کرام کی عظمت کا عملی اظہار ہوں گے، لہٰذا صحابہ کرام کے ناموں کو عام کیجیے، یہ بھی ان کے دفاع اور محبت کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔
(4) “بچوں کو صحابہ کرام کے واقعات سنانا”
بچوں کی ابتدائی تربیت ہی ان کی پوری زندگی کا رخ متعین کرتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معصوم بچوں کی ذہنی بنیادیں اتنی مضبوط رکھیں کہ کل وہ کسی باطل نظریے یا گمراہ گروہ کے چنگل میں نہ پھنس سکیں، تربیت کا ایک مؤثر اور مثبت طریقہ یہ ہے کہ ہم بچپن ہی سے بچوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت راسخ کر دیں۔
اس مقصد کے لیے بچوں کو صحابہ کرام کی شجاعت، عبادت، ایثار اور اخلاص کے واقعات سادہ اور پر اثر انداز میں سنائے جائیں، خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ کے اسمائے گرامی یاد کروائے جائیں، تاکہ ان عظیم شخصیات سے فطری انسیت پیدا ہو، غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر اہم اسلامی معرکوں کا پس منظر، ان میں صحابہ کرام کی قربانیوں اور بہادری کو کہانیوں کی صورت میں بچوں تک پہنچایا جائے۔
اس تربیت کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب بچے شعور کی عمر کو پہنچیں گے، تو ان کے دل صحابہ کرام کی محبت سے سرشار ہوں گے، اور وہ کسی باطل پروپیگنڈے کا شکار نہیں بنیں گے۔ یہی تربیت نسلِ نو کو صحابہ کرام کے دفاع اور ان کے نقوشِ قدم پر چلنے کے لیے تیار کرے گی۔
(5) “سوشل میڈیا پر صحابہ کرام کے فضائل پر مشتمل مدلل مضامین شئیر کرنا”
سوشل میڈیا آج کے دور میں سب سے مؤثر ذرائع ابلاغ میں سے ایک ہے، ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب، ان کی قربانیوں، اخلاص اور خدمات پر مشتمل مضامین، آرٹیکل، اقتباسات اور خوبصورت پوسٹرز باقاعدگی سے شیئر کیے جائیں، تاکہ ہر طرف صحابہ کرام کی عظمت اور شان کا چرچا ہو۔
علمائے کرام کی تقاریر، ویڈیوز اور آڈیوز، جو دفاعِ صحابہ کے موضوع پر ہوں، انہیں عام کریں، دوسروں تک پہنچائیں، شیئر کریں۔ جو علماء دفاع صحابہ پر جرأت سے بولتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے بیانات کو لائیک کریں، کمینٹس کریں، تاکہ ان کی ریچ وسیع ہو، اور سچ زیادہ سے زیادہ دلوں تک پہنچ سکے۔
ہمیں سوشل میڈیا پر اس طرح سرگرم ہونا چاہیے کہ گویا ہم علمائے کرام کے دست و بازو بن کر صحابہ کرام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا جواب دیں اور ان کی محبت دلوں میں اجاگر کریں۔ یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
(6) عوام کو گمراہ کن دعاہ سے متنبہ کرنا:
عوام کو ان گمراہ کن خطیبوں اور نام نہاد “دعاۃ” سے ہوشیار کرنا بے حد ضروری ہے، جو لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے اور شہرت کے لالچ میں صحابہ کرام جیسی مقدس ہستیوں پر زبان درازی کرتے ہیں، ان پر بے بنیاد اعتراضات اور کیچڑ اچھالتے ہیں، ایسے لوگوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لانا دینی غیرت کا تقاضا ہے۔
ان کی کتابوں، تحریروں، لیکچرز اور لٹریچر سے عوام کو دور رکھنا چاہیے، جیسے کہ مودودی اور اسحاق جھالوی، جنہوں نے صحابہ کرام کے بارے میں گمراہ کن نظریات پھیلائے ہیں، اور آج ان کی اولاد مرزا جہلمی ہے، جو لب و لہجے سے عوام کو متاثر کر کے دلوں میں صحابہ کے بارے میں وسوسے پیدا کرتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ عوام کو صحیح سمت دکھائی جائے، اور ان کو کتاب و سنت کے حقیقی داعیان، سلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلنے والے علمائے حق کی طرف رہنمائی کی جائے، تاکہ وہ دین کی اصل روح سے جڑ سکیں، اور گمراہی سے بچ سکیں۔ یہ علمی و دینی امانت ہے جسے ہم سب کو ادا کرنا ہوگا۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی