صحابہ رضوان اللہ علہیم  کے حوالے سے میرا عقیدہ

صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی معروف کتاب “العقیدۃ الواسطیۃ” کے یہ جملے میرا عقیدہ ہیں
اصحاب رسول اللہ ﷺ کے بارے میں اہل سنت وجماعت کا مؤقف:

وَمِنْ أُصُولِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ سَلاَمَةُ قُلُوبِهِمْ وَأَلْسِنَتِهِمْ لأَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ

’’ عقیدہ اہل سنت وجماعت کے بنیادی اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے دل اور زبانیں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے حوالے سے سلامت ہیں۔‘‘
اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اہل سنت و جماعت کے اس موقف کی تائید میں قرآن مجید کی آیت لکھتے ہیں کہ :

وَٱلَّذِينَ جَآءُو مِنۢ بَعۡدِهِمۡ يَقُولُونَ رَبَّنَا ٱغۡفِرۡ لَنَا وَلِإِخۡوَٰنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلۡإِيمَٰنِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِي قُلُوبِنَا غِلّٗا لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ رَبَّنَآ إِنَّكَ رَءُوفٞ رَّحِيمٌ(الحشر: 10)

’’ اور ان (مہاجرین) کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے پروردگار ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف کردے جو ہم سے پہلے ایمان لائے، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کینہ پیدا نہ کر، ہمارے رب! یقیناً تو بہت شفقت والا، بڑا رحم والا ہے۔‘‘
پھر انصار کے بارے میں فرمایا:

وَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلۡإِيمَٰنَ مِن قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّونَ مَنۡ هَاجَرَ إِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمۡ حَاجَةٗ مِّمَّآ أُوتُواْ وَيُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفۡسِهِۦ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ(الحشر: 9)

’’ اور ان لوگوں کے لیے بھی جو دارالسلام اور ایمان میں ان کے قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کے پاس ہجرت کر کے آتے ہیں اور انہیں جو کچھ دیا گیا ہے اس سے اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور وہ دوسروں کو اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی مبتلا ہوں۔‘‘
صحابہ کرامؓ کو سب و شتم کرنے کی ممانعت

وَطَاعَةَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي قَوْلِهِ: لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهُ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلا نَصِيفَهُ (بخاری3673مسلم2541)

’’ اور اس ارشاد میں نبی ﷺ کی اطاعت کرنا ’’ میرے صحابہ کو بُرا بھلا مت کہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو وہ ان کے ایک مدّ بلکہ نصف مدّ کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
فضائل صحابہ کرامؓ:

وَيَقْبَلُونَ مَا جَاءَ بِهِ الْكِتَابُ وَالسَّنَّةُ وَالإِجْمَاعُ مِنْ فَضَائِلِهِمْ وَمَرَاتِبِهِمْ

’’اور وہ ان کے فضائل و مراتب کے بارے میں کتاب و سنت اور اجماع کی تصریحات کو قبول کرتے ہیں۔‘‘
اور اسی فضیلت کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس طرح بیان کیا:

وَيُفَضِّلُونَ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ-وَهُوَصُلْحُ الْحُدَيْبِيَةِ-وَقَاتَلَ عَلَى مَنْ أَنْفَقَ مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلَ

’’ اہل سنت صلح حدیبیہ سے قبل خرچ کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کو اس کے بعد خرچ کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں پر فضیلت دیتے ہیں۔‘‘
مہاجرین کی انصار پر فضیلت::

وَيُقَدِّمُونَ الْمُهَاجِرِينَ عَلَى الأَنْصَارِ

’’ اور وہ مہاجرین کو انصار پر مقدم رکھتے ہیں۔‘‘
اصحاب بدر :

وَيُؤْمِنُونَ بِأَنَّ اللهَ قَالَ لأَهْلِ بَدْرٍ- وَكَانُوا ثَلاثَ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَر ـ: (اعْمَلُوا مَا شِئْتُم. فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ)

’’ اور ان کا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا۔ ان کی تعداد تین سو دس سے کچھ زائد تھی۔ تم جو چاہو عمل کرو، یقیناً میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘
اصحاب بیعت رضوان:

وَبِأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ؛ كَمَا أَخْبَرَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ بَلْ لَقَدْ رَضَيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ، وَكَانُوا أَكْثَرَ مِنْ أَلْفٍ وَأَرْبَعِ ماِئَة

’’ اور یہ کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والا کوئی ایک صحابی بھی جہنم میں نہیں جائے گا جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی خبر دی ہے۔ بلکہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور ان کی تعداد ۱۴۰۰ سے زائد تھی۔‘‘
جس کے جنتی ہونے کی گواہی رسول اللہ ﷺ نے دی اہل سنت وجماعت اس کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں

وَيَشْهَدُونَ بِالْجَنَّةِ لِمَنْ شَهِدَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ كَالْعَشَرَةِ، وَثَابِتِ بْنِ قِيْسِ بنِ شَمَّاسٍ، وَغَيْرِهِم مِّنَ الصَّحَابَةِ

’’ اہل سنت وجماعت اس شخص کے لیے جنت کی گواہی دیتے ہیں جس کے لیے رسول اللہﷺ نے جنت کی گواہی دی۔ جس طرح کے عشرہ مبشرہ، ثابت بن قیس بن شماس اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرامؓ۔‘‘
اُمت کے بہترین افراد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں:

وَيُقِرُّونَ بِمَا تَوَاتَرَ بِهِ النَّقْلُ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- وَغَيْرِهِ مِنْ أَنَّ خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

’’ اور وہ امیر المؤمنین علی ؓ بن ابو طالب اور دوسرے صحابہ کرامؓ سے تواتر کے ساتھ منقول اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس امُت کے بہترین فرد ابو بکرؓ اور ان کے بعد عمرؓ ہیں۔‘‘
اہل سُنت کا عقیدہ کہ عثمانؓ تیسرے خلیفہ اور علیؓ چوتھے خلیفہ ہیں

وَيُثَلِّثُونَ بِعُثْمَانَ، وَيُرَبِّعُونَ بِعَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ؛ كَمَا دَلَّتْ عَلَيْهِ الآثَارُ

’’ وہ عثمان ؓ کو تیسرے اور علیؓ کو چوتھے نمبر پر رکھتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ فضیلت دو اعتبار سے بیان کی ہے
اول: ’’كما دلت عليه الآثار ‘‘ ’’ جس طرح کہ اس پر آثار دلالت کرتے ہیں۔‘‘
دوم: ’’وكما أجمع الصّحابة على تقديم عثمان في البيعة ‘‘ ’’ اور جس طرح کہ بیعت کرتے وقت صحابہ کرامؓ نے عثمانؓ کی تقدیم پر اجماع کیا۔‘‘

مَعَ أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ السُّنَّةِ كَانُوا قَدِ اخْتَلَفُوا فِي عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضَيَ اللهُ عَنْهُمَا بَعْدَ اتِّفَاقِهِمْ عَلَى تَقْدِيمِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟ فَقَدَّمَ قَوْمٌ عُثْمَانَ: وَسَكَتُوا، أَوْ رَبَّعُوا بِعَلِيٍّ

’’ یہ اس امر کے باوجود کہ بعض اہل سنت وجماعت نے ابو بکرؓ و عمرؓ کی تقدیم پر اتفاق کرنے کے بعد عثمانؓ و علیؓ میں اختلاف کیا ہے کہ ان میں سے افضل کون ہے؟ کچھ لوگ عثمانؓ کو مقدم رکھنے کے بعد خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا پھر علیؓ کو چوتھے پر رکھتے ہیں۔‘‘

لَكِنِ اسْتَقَرَّ أَمْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ عَلَى تَقْدِيمِ عُثْمَانَ، ثُمَّ عَلِيٍّ

’’ مگر اہل سنت وجماعت عثمانؓ کو علیؓ پر مقدم قرار دیتے ہیں۔‘‘

وَإِنْ كَانَتْ هَذِه الْمَسْأَلَةُ مَسْأَلَةُ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ لَيْسَتْ مِنَ الأُصُولِ الَّتِي يُضَلَّلُ الْمُخَالِفُ فِيهَا عِنْدَ جُمْهُورِ أَهْلِ السُّنَّةِ

’’ اگرچہ یہ مسئلہ ۔ عثمانؓ و علیؓ کا مسئلہ ۔ ان اصولوں میں سے نہیں ہے جن کے مخالفین کو جمہور اہل سنت کے نزدیک گمراہ کہا جاسکتا ہے۔‘‘

لَكِنِ الَّتِي يُضَلَّلُ فِيهَا: مَسْأَلَةُ الْخِلاَفَةِ

’’ مگر جس مسئلہ کے بارے میں گمراہ کہا جاسکتا ہے وہ مسئلہ خلافت ہے۔‘‘

وَذَلِكَ أَنَّهُمْ يُؤْمِنُونَ أَنَّ الْخَلِيفَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِيٌّ

’’ اہل سنت کا اس بات پر ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکرؓ ، پھر عمرؓ، پھر عثمانؓ اور پھر علیؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔‘‘
خلافت میں اختلاف کرنے والا گدھے سے بڑھ کر گمراہ ہے

وَمَنْ طَعَنَ فِي خِلاَفَةِ أَحَدٍ مِنْ هَؤُلاءِ؛ فَهُوَ أَضَلُّ مِنْ حِمَارِ أَهْلِهِ

’’ ان میں سے کسی ایک کی خلافت میں طعنہ زنی کرنے والا اپنے گھر والوں کے گدھے سے بھی بڑھ کر گمراہ ہے۔‘‘
اہل سنت وجماعت کی اہل بیت سے محبت

وَيُحِبُّونَ أَهْلَ بَيْتِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَيَتَوَلَّوْنَهُمْ

’’ اہل سنت اہل بیت سے محبت کرتے اور انہیں اپنے اولیاء گردانتے ہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی وصیت:

وَيَحْفَظُونَ فِيهِمْ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم: حَيْثُ قَالَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ: (أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي)

’’ اور وہ ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی وصیت کا خیال رکھتے ہیں کہ آپ نے غدیر خم کے دن فرمایا: ’’ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرواتا ہوں۔‘‘
بنی ہاشم سے رسول اللہ ﷺ کا انتخاب

وَقَالَ أَيْضًا لِلْعَبَّاسِ عَمِّه وَقَدِ اشْتَكَى إِلَيْهِ أَنَّ بَعْضَ قُرَيْشٍ يَجْفُو بَنِي هَاشِمٍ فَقَالَ: (وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ؛ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحِبُّوكُمْ؛ للهِ وَلِقَرَابَتِي)

’’ جب آپ ﷺ کے چچا عباسؓ نے آپ ﷺ سے یہ شکایت کی بعض قریش بنو ہاشم کو ناپسند کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ مومن نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرتے۔‘‘

وَقَالَ: إِنَّ اللهَ اصْطَفَى بَنِي إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي إسْمَاعِيلَ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ

’’ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کو منتخب فرمایا، بنی اسماعیل سے کنانہ کو، کنانہ سے قریش کو، قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے منتخب فرمایا۔‘‘
مولات اُمہات المؤمنین:

وَيَتَوَلَّوْنَ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ

’’ اہل سنت وجماعت رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات امہات المؤمنین سے بھی محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔‘‘
سیدہ خدیجہ ؓ کے فضائل:

وَيُؤْمِنُونَ بَأَنَّهُنَّ أَزْوَاجُهُ فِي الآخِرَةِ: خُصُوصًا خَدِيجَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أُمَّ أَكْثَرِ أَوْلاَدِهِ، وَأَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِهِ وَعَاَضَدَهُ عَلَى أَمْرِه، وَكَانَ لَهَا مِنْهُ الْمَنْزِلَةُ الْعَالِيَةُ

’’ اوراھل سنت و جماعت کا ایمان ہے کہ وہ آخرت میں بھی آپ ﷺ کی بیویاں ہوں گی، خاص طور پر سیدہ خدیجہ ؓ جو آپ کی اکثر اولاد کی ماں ہیں، سیدہ خدیجہؓ آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور آپ کے معاملے میں آپ ﷺ کو تقویت دی۔
سیدہ عائشہؓ کے فضائل:

وَالصِّدِّيقَةَ بِنْتَ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، الَّتِي قَالَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: (فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ)

’’اور صدیقہ بنت صدیقؓ جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ عورتوں پر عائشہ ؓ کو وہی فضیلت حاصل ہے جو ثرید کو دیگر کھانوں پر۔‘‘
اہل سنت وجماعت کا روافض سے براءت:

وَيَتَبَرَّؤُونَ مِنْ طَرِيقَةِ الرَّوَافِضِ الَّذِينَ يُبْغِضُونَ الصَّحَابَةَ وَيَسُبُّونَهُمْ

’’ اہل سنت وجماعت روافض کے طریقہ سے براءت کا اظہار کرتے ہیں جو صحابہ کرامؓ سے نفرت کرتے اور انہیں سبّ و شتم کرتے ہیں۔‘‘
اہل سنت وجماعت کا نواصب سے براء ت:

وَطَرِيقَةِ النَّوَاصِبِ الَّذِينَ يُؤْذُونَ أَهْلَ الْبَيْتِ بِقَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ

’’ اور وہ ناصبیوں کے طریقہ سے بھی براءت کا اظہار کرتے ہیں جو کہ اپنے قول یا عمل سے اہل بیت کو اذیت دیتے ہیں۔‘‘
اہل سنت کا مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں سکوت اختیار کرنا:

وَيُمْسِكُونَ عَمَّا شَجَرَ بَيْنَ الصَّحَابَةِ

’’ اور وہ مشاجرات صحابہ کے بارے میں لب کشائی سے باز رہتے ہیں۔‘‘
صحابہ کے مساوی کے متعلق وارد آثار کا جھوٹا ہونا:

وَيَقُولُونَ: إِنَّ هَذِهِ الآثَارَ الْمَرْوِيَّةَ فِي مَسَاوِيهِمْ مِنْهَا مَا هُوَ كَذِبٌ، وَمَنْهَا مَا قَدْ زِيدَ فِيهِ وَنُقِصَ وَغُيِّرَ عَنْ وَجْهِهِ

’’ وہ کہتے ہیں: صحابہ کرامؓ کے مساوی کے بارے میں مروی آثار میں سے بعض تو سراسر جھوٹ ہیں، بعض میں کمی بیشی کر دی گئی جبکہ کئی ایک کو ان کے صحیح رُخ سے ہٹا دیا گیا۔‘‘

وَالصَّحِيحُ مِنْهُ هُمْ فِيهِ مَعْذُورُونَ: إِمَّا مُجْتَهِدُونَ مُصِيبُونَ، وَإِمَّا مُجْتَهِدُونَ مُخْطِئُونَ

’’ رہے ان میں سے آثار صحیحہ، تو وہ اس بات میں معذور ہیں۔ انہوں نے اجتہاد کیا، اب یا تو وہ صحیح نتیجہ پر پہنچے یا پھر ان سے غلطی ہوگئی۔‘‘

وَهُم مَّعَ ذَلِكَ لاَ يَعْتَقِدُونَ أَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ مَعْصُومٌ عَنْ كَبَائِرِ الإِثْمِ وَصَغَائِرِهِ

’’ اس کے باوجود اہل سنت کا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے معصوم تھا۔‘‘
اہل سنت کا صحابہ ؓ کی مغفرت کو واجب سمجھنا:

بَلْ يَجُوزُ عَلَيْهِمُ الذُّنُوبُ فِي الْجُمْلَةِ. وَلَهُم مِّنَ السَّوَابِقِ وَالْفَضَائِلِ مَا يُوجِبُ مَغْفِرَةَ مَا يَصْدُرُ مِنْهُمْ إِنْ صَدَرَ

’’ فی الجملہ صحابہ کرام سے گناہوں کا صدور ممکن ہے، مگر وہ سبقت الی الاسلام اور کچھ ایسے دیگر فضائل کے حامل ہیں کہ اگر ان سے کسی گناہ کا صدور ہو بھی جائے تو وہ ان کی مغفرت کو واجب قرار دیتے ہیں۔‘‘

حَتَّى إنَّهُمْ يُغْفَرُ لَهُم مِّنَ السَّيِّئَاتِ مَا لاَ يُغْفَرُ لِمَنْ بَعْدَهُمْ؛ لأَنَّ لَهُم مِّنَ الْحَسَنَاتِ الَّتِي تَمْحُو السَّيِّئَاتِ مَا لَيْسَ لِمَنْ بَعْدَهُمْ. وَقَدْ ثَبَتَ بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُمْ خَيْرُ الْقُرُونِ، وَأَنَّ الْمُدَّ مِنْ أَحَدِهِمْ إذَا تَصَدَّقَ بِهِ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا مِمَّن بَعْدَهُمْ

’’ یہاں تک کہ ان کے وہ گناہ بھی معاف کردئیے جاتے ہیں جو ان کے بعد آنے والوں کے معاف نہیں کیے جاتے۔ رسول اللہﷺ کے ارشاد سے ثابت ہے کہ وہ بہترین زمانہ کے لوگ ہیں، اور یہ کہ ان میں سے کسی ایک کا مدّ یا نصف مدّ بھر صدقہ بعد میں آنے والوں کے اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے افضل ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے صحابہ ؓ کو معاف کردیا:

ثُمَّ إِذَا كَانَ قَدْ صَدَرَ مِنْ أَحَدِهِمْ ذَنْبٌ؛ فَيَكُونُ قَدْ تَابَ مِنْهُ

’’ پھر جب ان میں سے کسی ایک سے کوئی گناہ صادر ہوا، تو ہوسکتا ہے کہ اس نے اس سے توبہ کرلی ہو۔‘‘

أَوْ أَتَى بَحَسَنَاتٍ تَمْحُوهُ:

’’ یا اس نے ایسی نیکیاں کیں جنہوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔‘‘

أَو غُفِرَ لَهُ؛ بِفَضْلِ سَابِقَتِهِ:

’’ یا اسے اس کی کسی سابقہ فضیلت کی وجہ سے معاف کردیا گیا۔‘‘

أَوْ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم الَّذِي هُمْ أَحَقُّ النَّاسِ بِشَفَاعَتِهِ))

’’ یا انہیں محمد ﷺ کی شفاعت نصیب ہوجائے جن کی شفاعت کے وہ سب لوگوں سے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی شفاعت کریں گے جس کے صحابہ کرام سب لوگوں سے زیادہ حق دار ہیں۔

أَوْ ابْتُلِيَ بِبَلاَءٍ فِي الدُّنْيَا كُفِّرَ بِهِ عَنْهُ

’’ یا دنیا میں اس کی کوئی ایسی آزمائش کی گئی جو اس کے گناہوں کا کفارہ بن گئی۔‘‘

فَإِذَا كَانَ هَذَا فِي الذُّنُوبِ الْمُحَقَّقَةِ؛ فَكَيْفَ الأُمُورُ الَّتِي كَانُوا فِيهَا مُجْتَهِدِينَ: إنْ أَصَابُوا؛ فَلَهُمْ أَجْرَانِ، وَإِنْ أَخْطَؤُوا؛ فَلَهُمْ أَجْرٌ وَاحِدٌ، وَالْخَطَأُ مغْفُورٌ

’’ جب ثابت شدہ گناہوں کے بارے میں یہ صورت حال ہے تو پھر ان امور کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جن میں اگر وہ صحیح فیصلہ کریں تو دوہرے اجر کے مستحق ٹھہریں اور اگر غلطی کے مرتکب ہوں تو بھی ایک اجر پائیں، اور غلطی معاف کردی جائے۔‘‘
صحابہ کے فضائل و محاسن:

مِنَ الإِيمَانِ بِاللهِ، وَرَسُولِهِ، وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِهِ، وَالْهِجْرَةِ، وَالنُّصْرَةِ، وَالْعِلْمِ النَّافِعِ، وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ

’’ مثلاً ان کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، فی سبیل اللہ جہاد اور ہجرت کرنا۔ دین اسلام کی نصرت و معاونت کرنا، علم نافع اور علم صالح۔‘‘
انبیاء کے بعد افضل صحابہ ہیں:

وَمَن نَّظَرَ فِي سِيرَةِ الْقَوْمِ بِعِلْمٍ وَبَصِيرَةٍ، وَمَا مَنَّ اللهُ عَلَيْهِم بِهِ مِنَ الْفَضَائِلِ؛ عَلِمَ يَقِينًا أَنَّهُمْ خِيْرُ الْخَلْقِ بَعْدَ الأَنْبِيَاءِ

’’ جو شخص صحابہ کرامؓ کی سیرت کا علم و بصیرت کے ساتھ جائز ہ لے گا، اور ان کے فضائل و مناقب کو پیش نظر رکھے گا تو اسے اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ وہ انبیاء کرام کے بعد بہترین قسم کے لوگ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دیگر اُمتوں کے لوگوں سے باعزت صحابہ ہیں

وَأَنَّهُمُ الصَّفْوَةُ مِنْ قُرُونِ هَذِهِ الأُمَّةِ الَّتِي هِيَ خَيْرُ الأُمَمِ وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللهِ

’’ صحابہ کرامؓ اس اُمت کے بہترین لوگ ہیں ، وہ اُمت جو کہ دیگر تمام اُمتوں سے بہترین اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اُمت ہے۔‘‘

شاہ فیض الابرار

یہ بھی پڑھیں: معاش نبویﷺ از ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی