سوال (2311)

ایک جگہ پہ سرونٹ شیعہ ہے اور اس کا بغض صحابہ ہم پر واضح ہے وہ روزانہ گیٹ کھولتا ہے تو میں اسے سلام نہیں کرتا ہوں، میرا یہ عمل جائز ہے؟

جواب

جب اس بدبخت کا بغض صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر واضح ہے تو آپ کا حق ہے کہ دین اسلام کے اول وآخر عادل گواہوں کی محبت میں اس کے ساتھ دل میں بغض رکھیں۔ یاد رکھیں بغض صحابہ کرام درحقیقت بغض اسلام ہے، بغض صحابہ کرام درحقیقت بغض قرآن ہے، بغض صحابہ کرام درحقیقت بغض ختم نبوت ہے، بغض صحابہ کرام درحقیقت بغض اہل بیت ہے، صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے ساتھ بغض و عداوت درحقیقت ان کے فضائل و مناقب شان و عظمت کا انکار ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں، تو ان دشمنان صحابہ سے بغض وعداوت رکھنا واجب ہے اور ان سے تعلق توڑنا بھی واجب ہے، آپ یاد رکھیں کہ سلام کہنا حق مسلم ہے اور یہ دعائیہ کلمات ہیں اس میں پیغام اخوت و محبت وسلامتی ہے اس کی اہمیت وفضیلت پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بغض صحابہ رکھنے والے سلام جیسے مبارک کلمات کے حق دار ہرگز نہیں ہیں۔ سلف صالحین نے روافض و دشمنان صحابہ کرام کے بارے میں کھلے الفاظ میں اپنا موقف واضح فرمایا ہے۔
بدعتی شخص سے سیدنا ابن عمر رضی الله عنہ کی بیزاری:

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺎﺻﻢ، ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺣﻴﻮﺓ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﺻﺨﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻧﻪ ﺟﺎءﻩ ﺭﺟﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻓﻼﻧﺎ ﻳﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻚ اﻟﺴﻼﻡ. ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻐﻨﻲ ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﺃﺣﺪﺙ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻗﺪ ﺃﺣﺪﺙ، ﻓﻼ ﺗﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ.
[سنن دارمی: 407 واللفظ له ،مسند أحمد بن حنبل: 7208، سنن ترمذی: 2152 سنده حسن لذاته لأجل أبو صخر هو صدوق حسن الحديث]

جب ایک عام بدعتی سے جلیل القدر صحابی کا یہ سلوک تھا تو یہ لوگ تو اس سے کہیں زیادہ برے سلوک و بائیکاٹ کے لائق ہیں۔

ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ اﻟﺪﻭﺭﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻋﺎﺷﺮﺕ اﻟﻨﺎﺱ ﻭﻛﻠﻤﺖ ﺃﻫﻞ اﻟﻜﻼﻡ، ﻭﻛﺬا، ﻓﻤﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﺃﻭﺳﺦ ﻭﺳﺨﺎ، ﻭﻻ ﺃﻗﺬﺭ ﻗﺬﺭا , ﻭﻻ ﺃﺿﻌﻒ ﺣﺠﺔ، ﻭﻻ ﺃﺣﻤﻖ ﻣﻦ اﻟﺮاﻓﻀﺔ ﻭﻟﻘﺪ ﻭﻟﻴﺖ ﻗﻀﺎء اﻟﺜﻐﻮﺭ، ﻓﻨﻔﻴﺖ ﻣﻨﻬﻢ ﺛﻼﺛﺔ ﺭﺟﺎﻝ ﺟﻬﻤﻴﻴﻦ ﻭﺭاﻓﻀﻴﺎ، ﺃﻭ ﺭاﻓﻀﻴﻴﻦ ﻭﺟﻬﻤﻴﺎ، ﻭﻗﻠﺖ: ﻣﺜﻠﻜﻢ ﻻ ﻳﺴﺎﻛﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﺜﻐﻮﺭ، ﻓﺄﺧﺮﺟﺘﻬﻢ

امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کے ساتھ رہا اور میں نے اہل کلام وغیرہ (گندے ترین اور گمراہ کن) سے بات چیت بھی کی ہے لیکن روافض سے بڑھ کر احمق ،دلائل میں کمزور، گندے پلید اور میلے کچیلے کوئی نہیں دیکھے امام صاحب مزید فرماتے ہیں کہ مجھے سرحدی علاقوں کا قاضی بنایا گیا تھا تو میں نے اپنے دور میں تین جھمیوں (اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکرین ) اور ایک رافضی کو یا دو رافضیوں اور ایک جہمی کو (راوی کو شک ھے) جلاوطن کردیا اور میں نے کہا کہ تمہارے جیسے (گندے ترین لوگ )اس قابل نہیں کہ سرحدی علاقوں میں رہ سکیں۔
[السنة للخلال: 795 سنده صحيح، تاريخ ابن معين، برواية الدورى 4991,499]

أﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﻤﺮﻭزﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﻣﻦ ﻳﺸﺘﻢ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﻭﻋﻤﺮ ﻭﻋﺎﺋﺸﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺭﺁﻩ ﻋﻠﻰ اﻹﺳﻼﻡ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ: اﻟﺬﻱ ﻳﺸﺘﻢ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺳﻬﻢ، ﺃﻭ ﻗﺎﻝ: ﻧﺼﻴﺐ ﻓﻲ اﻹﺳﻼﻡ

ابوبکر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ جو شخص سیدنا ابوبکر وعمر اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کو گلی دیتا ھے اسکا کیا حکم ھے؟ تو آپ نے جواب دیا: میں اسکو اسلام پر نہیں سمجھتا۔ ابوبکر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا وہ کہتے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص کسی بھی صحابی کو گالی دیتا ہے اسکا اسلام میں کچھ بھی حصہ نہی
[السنة للخلال: 779 سنده صحيح]

أﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺭﺟﻞ ﺷﺘﻢ ﺭﺟﻼ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺭاﻩ ﻋﻠﻰ اﻹﺳﻼﻡ۔

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل کہتے ہیں میں نے اپنے والد( احمد بن حنبل) رحمہ الله سے پوچھا جو شخص کسی بھی صحابی کو گالی دیتا ہے اس کے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ایسا شخص اسلام پر ہی نہیں۔
[السنة للخلال:(782) سنده صحيح]

أﺧﺒﺮﻧﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺜﻘﻔﻲ اﻟﻨﻴﺴﺎﺑﻮﺭﻱ (هو اﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﻬﺮاﻥ اﻟﻨﻴﺴﺎﺑﻮﺭﻱ اﻟﺴﺮاﺝ ثقة ﻭﻛﺎﻥ ﻟﻪ اﺧﺘﺼﺎﺹ ﺑﺄﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ) ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺭﺟﻞ ﻟﻪ ﺟﺎﺭ ﺭاﻓﻀﻲ ﻳﺴﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﻻ، ﻭﺇﺫا ﺳﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ ﻻ ﻳﺮﺩ ﻋﻠﻴﻪ۔

امام ابو عبد الله امام احمد بن حنبل رحمہ الله سے پوچھا گیا کہ کیا رافضی پڑوسی کو سلام کیا جاۓ؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: نا تو خود سلام کیا جائے بلکہ اگر وہ سلام میں پہل بھی کرے تب بھی اسکا جواب نا دیا جائے۔
[السنة للخلال: 784 سنده صحيح]

ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ، ﻭﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺜﻘﻔﻲ، ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺭﺟﻞ ﻟﻪ ﺟﺎﺭ ﺟﻬﻤﻲ، ﻳﺴﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﻻ
[السنة للخلال: 1702 سنده صحيح]
ﻛﺘﺐ ﺇﻟﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﺃﻧﻪ ﺳﺄﻝ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺪﻋﺔ، ﻳﺴﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺟﻬﻤﻴﺎ، ﺃﻭ ﻗﺪﺭﻳﺎ، ﺃﻭ ﺭاﻓﻀﻴﺎ ﺩاﻋﻴﺔ، ﻓﻼ ﻳﺼﻠﻲ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﻻ ﻳﺴﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ
[السنة للخلال: 785]

اس اثر میں بھی امام أحمد بن حنبل روافض و شیعہ کو سلام نہ کہنے کا فرما رہے ہیں۔
یاد رہے اس سے ثقہ و عادل روات الحدیث خارج ہیں اور غالی شیعہ بھی جو صرف تفضیلی شیعہ تھے یعنی سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کو افضل خیال کرتے تھے خلفائے ثلاثہ کی نسبت اور وہ اعتقادی وگمراہ شیعہ ہرگز نہیں تھے۔
امام بخاری نے کہا:

ﻣﺎ ﺃﺑﺎﻟﻲ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ اﻟﺠﻬﻤﻲ اﻟﺮاﻓﻀﻲ ﺃﻡ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ اﻟﻴﻬﻮﺩ ﻭاﻟﻨﺼﺎﺭﻯ، ﻭﻻ ﻳﺴﻠﻢ عليهم، ﻭﻻ ﻳﻌﺎﺩﻭﻥ، ﻭﻻ ﻳﻨﺎﻛﺤﻮﻥ، ﻭﻻ ﻳﺸﻬﺪﻭﻥ، ﻭﻻ ﺗﺆﻛﻞ ﺫﺑﺎﺋﺤﻬﻢ [خلق أفعال العباد: 53]

امام بخاری بھی جہمیہ،اور روافص کو سلام وغیرہ نہ کرنے کا فرما رہے ہیں۔

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ ﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ ﺃﺻﺒﻎ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺃﻫﻞ اﻷﻫﻮاء ﺃﻳﺴﻠﻢ عليهم ﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ ﺃﻫﻞ اﻷﻫﻮاء ﺑﺌﺲ اﻟﻘﻮﻡ ﻻ ﻳﺴﻠﻢ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﻭاﻋﺘﺰاﻟﻬﻢ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻰ [تاريخ ابن معين رواية الدوري: 1214]

یہ دیکھ لیں امام مالک بن انس اہل بدعت کو سلام نہ کرنے کو فرما رہے ہیں۔
مزید اس مسئلہ کے بارے میں امام الخلال کی السنة ملاحظہ فرمائیں۔
رب العالمین ہمیں کتاب و سنت کی بنیاد پر عقیدہ الولاء والبراء کو اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں یعنی ہم کسی کے تعلق و محبت رکھیں تو خالص توحید وسنت کی بنیاد پر اور بغض و بائیکاٹ رکھیں تو تب بھی توحید وسنت کی بنیاد پر۔
یاد رکھیں عام لوگوں سے تعلقات اس نیت و ارادہ سے رکھنے ہیں کہ ان تک پیغام الہی وکتاب وسنت کی دعوت پہنچانی اور ان کی برابر اصلاح کرنی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

آپ کا عمل جائز ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

سائل:
اگر کوئی لفظ استعمال کرنا پڑ جائے سلام کے حوالے سے تو کیا خاموشی اختیار کرنی چاہیے؟
جواب:
خاموشی بہتر ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ