ایک عمومی شبہ بعض ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ امت مسلمہ نے تمام صحابہ کے متعلق عدول ہونے اور قابل اعتماد اور قابل اعتبار ہونے کا عقیدہ کس طرح رکھ لیا حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان میں خفیہ طور پر منافقین شامل ہوں اور امت مسلمہ نے ان کو بھی “صحابہ” والا سٹیٹس دے دیا ہو۔ اس شبہے کو بہت سے طریقوں سے رفع کیا جا سکتا ہے تاہم چند موٹی موٹی باتیں جن کو سمجھنے سے اس کا شافی علاج ہو جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں :
1۔ قران مجید نے متعدد مقامات پر اس بات کو وضاحت اور صراحت سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کی جماعت کو اس حال پر برقرار نہیں رکھنا کہ اس میں خبیث وطیب ملے جلے ہوں، بلکہ واقعات حوادث آزمائشوں اور فتنوں کے ذریعے اللہ تعالی نے خبیث اور طیب کو جدا جدا کر دینا ہے۔
مثال کے طور پر سورۃ آل عمران 179 میں ارشاد باری تعالی ہے :
مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ
یہ مفہوم قران مجید میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔
2۔ صحابہ کرام کے یہاں بھی منافقین اپنے کردار اور علامات کی بنا پر جانے پہچانے اور گنے چنے ہوتے تھے جیسا کہ کئی آثار میں “معلوم النفاق” لوگوں کا تذکرہ صحابہ سے ملتا ہے۔ رہا صحابہ کی جماعت کا اپنے متعلق نفاق کے خوف میں مبتلا رہنا تو یہ چیز دیگر است اور یہ ایمان کی علامات میں سے ہے کہ انسان اپنے متعلق امن میں نا رہے اور اپنے بارے میں ڈرتا رہے۔
3۔ اللہ تعالی نے اس دین کی حفاظت کا جو ذمہ لیا ہے وہ مافوق الفطرت طریقے سے نہیں بلکہ اپنے بندوں کے ذریعے ہی پورا کروایا ہے، قران مجید کی حفاظت تدوین روایت اور نقل ہوتا چلے آنا اس کی دلیل ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جاۓ کہ دین کے اوّلین رواۃ میں ہی ایسے لوگ چھپے ہوۓ تھے جو اندر سے اسلام کے دشمن تھے، اور امت پر ان کا نفاق مخفی رہ گیا اور امت نے ان پر اپنے دین کی روایت اور نقل میں اعتماد کر لیا ۔ تو اس سے اللہ تعالی کے اس ذمہ حفاظت پر بھی زد آتی ہے۔
4۔ قران مجید کا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقا صحابہ کے گروہ کا تزکیہ بیان کرنا، ان کی تعریف کرنا اور ان کے لیۓ بشارتوں کو کثرت سے ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس گروہ میں پوشیدہ طور پر ایسے لوگ چھپے نہیں رہ گئے کہ جن کا نفاق مخفی ہی رہ گیا ہو۔
5۔ جو شخص بھی ان صحابہ کے احوال اور سوانح کو پڑھے گا جن کی زندگیوں کے گوشے ہم تک نقل ہو سکے ہیں، یا جو اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے یا خصوصا جن لوگوں کے ذریعے وحی کا علم نقل ہوا ، اور پھر وہ قران مجید ميں بالخصوص اور سنت نبوی میں بالعموم ذکر ہونے والے منافقین کے اوصاف پڑھے گا تو وہ خود یہ بات جان لے گا کہ یہ پاک طینت اور پاک باز انسانوں کا گروہ اس قبیح اوصاف سے کس قدر بعید تھا۔
6۔ صحابہ کی جماعت سے نقل ہونے والے علم کا آپس میں موازنہ کیا جائے اور اس کو پرکھا جائے تو تب بھی اس حقیقت کو انسان جان لے گا کہ اس بات کا امکان موجود نہیں کہ ان میں کوئی ایسا شخص بھی پوشیدہ طور پر نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ جو درحقیقت منافق ہو۔
7۔ دین کا اکثر ، نمایاں اور مرکزی حصہ جن صحابہ سے روایت ہوا ہے وہ عام قسم کے صحابہ نہیں بلکہ نبی کریم علیہ السلام کے خاص معتمد اور تربیت یافتہ صحابہ ہیں، جیسے عمر بن خطاب ، ابن مسعود ، ابن عباس ، ابن عمر ، زید بن ثابت ، علی بن ابی طالب وغیرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اس لیۓ ایسا بھی ممکن نہیں کہ کسی نامعلوم منافق شخص نے صحابی ہونے کی آڑ میں اس امت کو چونا لگا دیا ہو اور امت نے اس سے آنکھیں بند کر کے دین کو قبول کر لیا ہو۔
اس بارے میں تفصیل سے اور دیگر بہت سے پہلؤوں سے لکھا جا سکتا ہے ، اس تحریر میں صرف چند اشارے لکھے ہیں۔
سید عبداللہ طارق