سوال (1766)

ایک صحابی نے سانپ ڈسنے والے کو دم کیا تھا اور ایک صحابی نے ایک پاگل کو دم کیا تھا ، پوچھنا یہ تھا جن کو یہ دم کیا گیا تھا کیا وہ مسلمان تھے ۔

جواب

(1) : سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

“انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَضَافُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقْرَأُ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ اقْسِمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الَّذِي رَقَى، ‏‏‏‏‏‏لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [صحيح البخاري : 2276]

«نبی کریم ﷺ کے کچھ صحابہ ؓ سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کردیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چناچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کردیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد لله رب العالمين پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ ﷺ سے اس کا ذکر کرلیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں۔ چناچہ سب حضرات رسول اللہ ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کرلو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے»
اس واقعے میں یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے صحابہ کی ضیافت سے انکار کردیا تھا ، قرینہ قیاس یہی ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے ، مسلمان ایسا نہیں کرسکتا ہے ۔

(2) : خارجہ بن صلت تمیمی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں ۔

‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقْبَلَ رَاجِعًا مِنْ عِنْدِهِ فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ عِنْدَهُمْ رَجُلٌ مَجْنُونٌ مُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَهْلُهُ:‏‏‏‏ إِنَّا حُدِّثْنَا أَنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ جَاءَ بِخَيْرٍ فَهَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ تُدَاوِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَقَيْتُهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَرَأَ فَأَعْطَوْنِي مِائَةَ شَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ إِلَّا هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُسَدَّدٌ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:‏‏‏‏ هَلْ قُلْتَ غَيْرَ هَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْهَا فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ” [سنن ابي داؤد : 3896]

«وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا، پھر لوٹ کر جب آپ کے پاس سے جانے لگے تو ایک قوم پر سے گزرے جن میں ایک شخص دیوانہ تھا زنجیر سے بندھا ہوا تھا تو اس کے گھر والے کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کے یہ ساتھی (رسول اللہ ﷺ ) خیر و بھلائی لے کر آئے ہیں تو کیا آپ کے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس شخص کا علاج کریں؟ میں نے سورة فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کردیا تو وہ اچھا ہوگیا، تو ان لوگوں نے مجھے سو بکریاں دیں، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے صرف یہی سورت پڑھی ہے؟ ۔ (مسدد کی ایک دوسری روایت میں: هل إلا هذا کے بجائے: هل قلت غير هذا ہے یعنی کیا تو نے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں پڑھا؟ ) میں نے عرض کیا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں لے لو، قسم ہے میری عمر کی لوگ تو ناجائز جھاڑ پھونک کی روٹی کھاتے ہیں اور تم نے تو جائز جھاڑ پھونک پر کھایا ہے»
اس روایت سے غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ، کیونکہ اس حدیث میں آتا ہے کہ تمہارے یہ ساتھی سنا ہے کہ بہت خیر کے کر آئے ہیں ، تمہارے پاس کیا ایسی چیز ہے ، جس کے ساتھ تم ہمارے مجنون کا علاج کر سکو ، صحابی رسول مسلمان ہوکر ہی پلٹے تھے ، انہوں نے علاج کیا تھا ، سو بکریاں ملی تھی ، غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی مسلمان نہیں تھے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ