سوال (2421)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب غنیمت حاصل ہوتی تو بلال کو حکم دیتے اور وہ اعلان کرتے اور لوگ اپنی اپنی غنیمتیں لے آتے۔ پھر آپ اس میں سے خمس ( پانچواں حصہ ) نکالتے اور پھر تقسیم کر دیتے۔ ایک بار ایک آدمی اس اعلان اور تقسیم کے بعد بالوں سے بنی ہوئی ایک لگام لے آیا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ہمیں غنیمت میں ملی تھی۔ آپ نے اس سے پوچھا:’’ کیا تو نے بلال کو منادی کرتے سنا تھا ؟“ آپ نے تین بار پوچھا۔ تو اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے کہا:’’ تو ( اس وقت ) تجھے یہ لے آنے سے کیا رکاوٹ تھی؟“ اس نے عذر معذرت کی مگر آپ نے فرمایا:’’ اب اسے اپنے پاس رکھو، قیامت کے دن لے آنا، میں اسے تجھ سے ہرگز قبول نہیں کرتا۔“ [سنن ابي داؤد: 2712]
ایک صاحب کا اعتراض ہے کہ اگر سارے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جنتی ہیں تو اس صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں فرمایا کہ قبول نہیں کروں گا؟

جواب

اس شخص سے دو سوال کریں، پہلا سوال یہ کریں کہ اس حدیث سے کسی صحابی کا جھنمی ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے، دوسرا سوال یہ کریں کہ آپ کو صحابہ کرام سے کیا عداوت ہے کہ آپ ان کو جنت میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ