سوال (2039)
سوشل میڈیا پر ایک بات بہت مشہور ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے دل کا دورہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو آیا. ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عجوہ کھجور گٹھلی سمیت پیس کر کھاؤ. اسکے بعد تمام زندگی ان کو دل کی تکلیف نہیں ہوئی.
اس کی کیا حقیقت ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں۔
جواب
اس حوالے سے ایک روایت مروی ہے جس کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
“مَرِضْتُ مَرَضًا أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا عَلَى فُؤَادِي فَقَالَ إِنَّكَ رَجُلٌ مَفْئُودٌ ائْتِ الْحَارِثَ بْنَ كَلَدَةَ أَخَا ثَقِيفٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ يَتَطَبَّبُ فَلْيَأْخُذْ سَبْعَ تَمَرَاتٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ فَلْيَجَأْهُنَّ بِنَوَاهُنَّ ثُمَّ لِيَلُدَّكَ بِهِنَّ”.
’’میں بہت سخت بیمار ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میری چھاتی کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل میں محسوس کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم دل کے مریض ہو‘ بنو ثقیف کے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ وہ طبابت کرتا ہے۔ اسے چاہیئے کہ مدینہ کی عجوہ کھجوروں میں سے سات کھجوریں لے کر انہیں گٹھلیوں سمیت کوٹ لے اور تمہیں کھلا دے“۔ [سنن أبي داود:3875]
صاحبِ واقعہ سعد کون ہیں؟
اس حوالے سے تین قسم کی روایات ہیں:
1۔ کچھ روایات میں صرف لفظ ’سعد’ ہے، ساتھ مزید کوئی نسبت نہیں ہے۔ جیسا کہ ابو داود کی ذکر کردہ روایت میں ہے۔ چنانچہ امام رحمہ اللہ نے اس کی سند یوں بیان کی ہے:
“حدَّثنا إسحاقُ بنُ إسماعيلَ، حدَّثنا سفيانُ، عن ابنِ أبي نَجيحٍ، عن مجاهدٍ عن سَعْدٍ قال: مرضتُ…”.
2۔ بعض طرق میں سعد بن ابی وقاص کی صراحت ہے۔ جیسا کہ الطبقات لابن سعد کی روایت میں ہے:
«أخبرنا محمد بن عمر قال: أخبرنا سفيان بن عيينة عن بن أبي نجيح عن مجاهد عن سعد بن أبي وقاص قال: مرضت فأتاني رسول الله». [الطبقات الكبرى – ط دار صادر 3/ 146]
گو کہ اس سند میں واقدی ہے۔
اسی طرح الاحادیث المختارۃ للضیاء میں بھی سعد بن ابی وقاص ہی ہے، كما رواه بسنده إلى مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيِّ، قَثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ: «مَرِضْتُ مَرَضًا شَدِيدًا…». [الأحاديث المختارة 3/ 243 برقم 1050]
وفي زهر الفردوس:
«قال ابن السني حدثنا أبو عروبة حدثنا عمرو بن هشام حدثنا سفيان عن ابن أبي نجيح عن مجاهد عن سعد بن أبي وقاص قال دخل عليّ النّبيّ صلى الله عليه وسلم يعودني…». [8/ 239 برقم 3243]
اسي طرح ایک اور روایت میں بھی اسی کی صراحت ہے:
كما رواه ابن حبيب عن إبراهيم بن المنذر الحزامي عن الواقدي عن أبي الزبير عَن جَابر بن عبد الله أَن رَسُول الله صلى الله عليه وسلم دخل على سعد بن أبي وَقاص… فَقَالَ: “أَنْت رجل مفؤود…». [طب العرب ص 46، العلاج بالأعشاب لابن حبيب المالكي ص25] ولكنه مسلسل بالعلل.
3۔ جبکہ بعض روایات میں سعد بن ابی رافع آیا ہے جیسا کہ طبرانی روایت کرتے ہیں:
«حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا يُونُسُ بْنُ الْحَجَّاجِ الثَّقَفِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي رَافِعٍ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، يَعُودُنِي…». [المعجم الكبير 6/ 50 برقم 5479]
امام ابو نعيم اسی روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
“كَذَا قَالَ يُونُسُ: سَعْدُ بْنُ أَبِي رَافِعٍ. وَقَالَ قُتَيْبَةُ: عَنْ سَعْدٍ وَلَمْ يَنْسُبْهُ. وَقِيلَ: إِنَّهُ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ”. [معرفة الصحابة 3/ 1290]
راجح بات یہی محسوس ہوتی ہے کہ یہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہی ہیں، کیونکہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے روایت کرنے والوں میں ایک آدھ کے علاوہ تمام شاگردوں نے یہی صراحت کی ہے۔ عبد الحق الاشبيلی (الأحكام الوسطى 4/231)، ابن الاثیر (جامع الاصول تحت رقم 5641) منذری (مختصر سنن أبي داود 5/ 358 برقم 3726)، مزی (تحفة الأشراف 3/ 310 برقم 3916 مسند ابن أبی وقاص) اور ابن حجر نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ (الاصابة 2/ 26، ترجمة سعد بن أبي رافع برقم 3152) اگرچہ حافظ ابن حجر نے تعدد الواقعہ کا احتمال بھی پیش کیا ہے، لیکن شاید اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
اول:ایک تو ابن ابی رافع والی روایت کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے کیونکہ یونس بن الحجاج مجہول ہے۔ علامہ ہیثمی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ يُونُسُ بْنُ الْحَجَّاجِ الثَّقَفِيُّ، وَلَمْ أَعْرِفْهُ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ». [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 5/ 88]
اسد الغابہ میں ہے:
«روى يونس بن بكير والحجاج الثقفي عن ابن عيينة عن ابن أبي نجيح عن مجاهد قال قال سعد بن أبي رافع… كذا نسبه يونس ورواه قتيبة عن سفيان عن سعد ولم ينسبه». [أسد الغابة في معرفة الصحابة 2/ 277]
جس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید یونس بن بکیر نے بھی ابن عیینہ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ لیکن صحیح بات یہی محسوس ہوتی ہے کہ یہ ’یونس بن الحجاج الثقفی’ ایک ہی راوی ہے، لیکن تحریف ہو کر درمیان میں ’بکیر’ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ آخر میں ایک ہی ’یونس’ کا ذکر ہے نہ کہ دونوں کا. واللہ اعلم۔
ویسے بھی یونس بن بکیر عن ابن عیینہ والی روایت کہیں مل بھی نہیں سکی۔ بلکہ حافظ ابن حجر نے تو صراحت فرمائی ہے:
«تفرّد يونس بن الحجاج، عن ابن عيينة، عن ابن أبي نجيح بقوله: سعد بن أبي رافع». الإصابة 3/ 48)
دوم: اس میں ابن عیینہ سے روایت کرنے والے قتیبہ بن سعید جیسے دیگر ثقات کی مخالفت ہے۔
سوم: بعض اہل علم کے نزدیک اس نام (سعد بن ابي رافع) سے کسی صحابی کا تذکرہ اس روایت کے علاوہ کہیں ملتا نہیں ہے۔ کیونکہ ابن حبان، طبرانی، ابن الاثیر حتی کہ ابن حجر وغیرہ جتنے بھی اہل علم نے صحابہ میں یہ نام ذکر کیا ہے، انہوں نے اس کے ضمن میں اس ایک روایت کے علاوہ کوئی اور چیز ذکر نہیں کی۔
سر زمین ہند سے اٹھنے والے عظيم مدنی محدث و محقق علامہ ضیاء الرحمن اعظمی ان تینوں وجوہات کا خلاصہ یوں فرماتے ہیں:
«ويونس بن الحجاج مجهول؛ لأنه لم يرو عنه إِلَّا محمد بن عبد الله الحضرمي، ومع ذلك ذكره ابن حبَّان في الثقات، ثمّ هو أخطأ في قوله: “سعد بن أبي رافع” لأنه لا يعرف في الصحابة من يسمى سعد بن أبي رافع». [الجامع الكامل 9/ 802]
لہذا مختصر یہ کہ صاحبِ واقعہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہی ہیں، جنہیں بعض دفعہ بغرض اختصار ’سعد’ کہہ دیا گیا ہے۔ اکثر شراح و محققین نے بھی یہ واقعہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نسبت سے ہی بیان کیا ہے۔
یہ واقعہ کب پیش آیا تھا؟
ابن الاثیر لکھتے ہیں:
“قال بعض العلماء: قيل: إنه سعد بْن أَبِي وقاص، فإنه مرض بمكة، وعاده النَّبِيّ صلى الله عليه وسلم وقال النَّبِيّ صلى الله عليه وسلم للحارث بْن كلدة الثقفي: «عالج سعدًا مما به» فعالجه، فبرأ. [أسد الغابة 2/ 432]
تورپشتی لکھتے ہیں:
«وكان سعد قد مرض مرضه ذلك بمكة عام الفتح». [الميسر في شرح مصابيح السنة 3/ 960]
جبکہ محمد بن سعد عن أبیہ والی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا تھا۔
پھر اس میں یہ اشکال بھی ہے کہ حارث بن کلدہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ابتدائے اسلام میں ہی فوت ہو چکا تھا! جیسا کہ تورپشتی وغیرہ نے ہی لکھا ہے:
«والحارث بن كلدة الثقفي مات في أول الإسلام، ولم يصح إسلامه». [الميسر في شرح مصابيح السنة 3/ 960]
لہذا اس سلسلے میں مزید تحقیق کی گنجائش ہے۔
اسناد کی تحقیق:
اس روایت کی سند میں یہ خامی بیان کی جاتی ہے کہ یہ مرسل ہے، کیونکہ مجاہد بن جبر المکی کا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: مُجَاهِدٌ لَمْ يُدْرِكْ سَعْدًا إِنَّمَا يَرْوِي عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ… وقَالَ أَبُو زُرْعَةَ: مُجَاهِدٌ عَنْ َسْعٍد مُرْسَلٌ». [المراسيل لابن أبي حاتم ص205،206 برقم 757،762]
یعنی مجاہد کی سعد سے روایات مرسل ہیں، کیونکہ انہوں ان سے ملاقات کا موقعہ نہیں پایا، بلکہ وہ مصعب بن سعد کے واسطے سے بیان کرتے ہیں۔
ابن القطان رقمطراز ہیں:
«وَكَانَ موت سعد بن أبي وَقاص، سنة ثَمَان وَخمسين، وَمُجاهد إِذْ ذَاك من نَحْو ثَمَان وَثَلَاثِينَ سنة فَهُوَ لَا يبعد سَمَاعه مِنْهُ، وَلَكِن لَا أعلمهُ». [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 2/ 560]
یعنی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات 58 ہجری کو ہوئی جب مجاہد کی عمر تقریبا 38 سال تھی، گو سماع کا امکان بعید نہیں، لیکن اس کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے۔
جبکہ اس سے پہلے فرماتے ہیں:
«وَلَكِنِّي أَشك فِي اتِّصَاله، فَإِنَّهُ من رِوَايَة مُجَاهِد، عَن سعد ابْن أبي وَقاص، وَلَا أعلم لَهُ سَمَاعا مِنْهُ، وَإِنَّمَا أعلمهُ يروي عَن عَامر بن سعد ابْن أبي وَقاص، عَن أَبِيه سعد». [2/ 559]
امام منذری نے بھی اس حدیث کے حوالے سے رازِیَیین کا قول نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے، فرماتے ہیں:
قال أبو حاتم الرازي: لم يدرك مجاهد سعدًا، إنما يروي عن مصعب بن سعد، وقال أبو زرعة الرازي: مجاهد عن سعد: مرسل». [مختصر سنن أبي داود للمنذري 2/ 602 ت حلاق]
معاصرین میں سے بھی بعض اہل علم نے اس روایت کو اسی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے.
شیخ عبد المحسن العباد فرماتے ہیں:
«وهذا الحديث غير ثابت؛ لأن فيه انقطاعاً بين مجاهد وبين سعد رضي الله عنه». [شرح سنن أبي داود للعباد 436/ 29 بترقيم الشاملة آليا]
دکتور بشار عواد اور ان کے رفقاء لکھتے ہیں:
“إِسناده ضعيفٌ؛ قال أَبو حاتم الرازي…”. [المسند المصنف المعلل 9/ 86]
شيخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی بعض کتابوں میں اس پر ضعیف کا حکم لگایا ہے۔ [ضعيف الجامع الصغير وزيادته: 2033، المشكاة (4224) – التحقيق الثاني، وانظر: هداية الرواة بتحقيق علي الحلبي برقم 4152]
ائمہ کرام کے اوپر ذکر کردہ اقوال سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مجاہد کا سعد سے سماع ثابت نہیں، لیکن دوسری مفید بات یہ پتہ چلتی ہے کہ مجاہد عموما سعد بن ابی وقاص کی روایات ان کی اولاد کے واسطے سے روایت کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ امام ابو حاتم کے قول میں مصعب بن سعد اور ابن القطان کے مطابق عامر بن سعد کا ذکر ملتا ہے۔ لہذا اگر اس روایت میں مجاہد اور سعد کے درمیان واسطہ ان دونوں میں سے کوئی ہو تو پھر یہ انقطاع ختم ہو جاتا ہے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ ان کے ایک اور بیٹے کے واسطے سے بھی مروی ہے، جس سے مجاہد والی اس مرسل روایت کی تائید ہوتی ہے۔
كما رواه أبو نعيم الأصبهاني بإسناده إلى محمدِ بن إِسْحاق، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضَ سَعْدٌ رضي الله عنه وَهُوَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَعَادَهُ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَرَانِي إِلَّا لِمَا بِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَشْفِيَكَ اللهُ، حَتَّى يُضَرَّ بِكَ قَوْمٌ وَيَنْتَفِعَ بِكَ آخَرُونَ» ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَارِثِ بْنِ كَلَدَةَ الثَّقَفِيِّ «عَالِجْ سَعْدًا مِمَّا بِهِ»، فَقَالَ: وَاللهِ إِنِّي لَأَرْجُو شِفَاءَهُ فِيمَا مَعَهُ فِي رَحْلِهِ، هَلْ مَعَكُمْ مِنْ هَذِهِ التَّمْرَةِ الْعَجْوَةِ شَيْءٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَصَنَعَ لَهُ الْفَرِيقَةَ، خَلَطَ لَهُ التَّمْرَ بِالْحُلْبَةِ، ثُمَّ أَوْسَعَهَا سَمْنًا، ثُمَّ أَحْسَاهَا إِيَّاهُ، فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ”. [معرفة الصحابة 2/ 779 برقم 2073، و انظر الطب النبوي 1/ 192 برقم 38، 1/ 404 برقم 360]
نوٹ: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ واقعہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی مروی ہے، لیکن اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ [طب العرب ص 46، العلاج بالأعشاب لابن حبيب المالكي ص25]
خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کو جس انقطاع کے سبب ضعیف قرار دیا گیا ہے، وہ انقطاع قابل انجبار ہے اور محمد بن سعد بن ابی وقاص کی روایت اس کے لیے مضبوط متابعت اور قوی شاہد ہے جس کی وجہ سے یہ روایت قابل حجت ہے۔ واللہ اعلم۔
جن اہل علم نے اس روایت کو صحیح، ثابت یا قابل حجت قرار دیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
سمہودی لکھتے ہیں:
«وصح لأبي داود عن سعد بن أبي وقاص مرضت…». [خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى 1/ 181]
عجلونی ایک روایت کے متعلق کہتے ہیں:
«ويشهد له ما ثبت في سنن أبي داود عن سعد قال: مرضت…». [كشف الخفاء ت هنداوي 1/ 139]
شعیب ارناؤوط کہتے ہیں:
“وسنده جيد”. [زاد المعاد ط الرسالة 4/88 حاشية رقم 2]
اس کے علاوہ بہت سارے اہلِ علم نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے، جیسا کہ آئندہ ان کا ذکر آئے گا۔
اعتراض اور اس کا جواب:
یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جب متقدم و متاخر کئی ایک اہلِ فن نے اس روایت پر کلام کیا ہے اور اسے منقطع قرار دیا ہے تو پھر اپنے اجتہاد اور بعض متاخرین کے اقوال کی بنا پر اسے صحیح کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ عموما اہلِ علم نے اس کے مجاہد والے طریق اور اس میں موجود انقطاع کا ذکر کیا ہے، اگر انہوں نے مطلقا اس پر تضعیف کا حکم لگایا ہوتا تو پھر واقعتا یہ اعتراض درست تھا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کسی حدیث کی بعض روایات یا کسی روایت کے بعض طرق پر کلام کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام طرق و وجوہ سے ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔
سعد رضی اللہ عنہ کی بیماری کیا تھی؟
عربی زبان میں دل کے لیے ’قلب’ اور ’فؤاد’ دونوں لفظ بولے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ ’فواد’ اس پردے اور برتن کا نام ہے، جس کے اندر ’قلب’ یعنی دل ہوتا ہے۔ اور مَفْئُودٌ اس شخص کو کہا جاتا ہے، جسے دل کی بیماری لاحق ہو۔
بعض اہلِ لغت اور شارحین کے حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں:
«وَقَوْلُهُ: إِنَّكَ رَجُلٌ مَفْئُودٌ، أَيْ قَدْ خَلُصَتِ الْعِلَّةُ إِلَى فُؤَادِكَ». [الدلائل في غريب الحديث للسرقسطي 2/ 719]
«المفؤود هو الذي أصيبب فؤاده كما قالوا لمن أصيب رأسه مرؤوس ولمن أصيب بطنه مبطون، ويقال إن الفؤاد غشاء القلب والقلب حبته وسويداؤه». [معالم السنن 4/ 224]
«المَفْؤُود: الَّذِي أصِيب فُؤَادُه بوَجَع». [النهاية في غريب الحديث والأثر 3/ 405]
المفؤود: الذي أصيب فؤاده فهو يشتكيه، كالمبطون الذي يشتكي بطنه. [زاد المعاد ط عطاءات العلم 4/ 134]
کئی ایک اہل علم نے اس حدیث کو ’علاج الفؤاد’ یا ’علاج المفئود’ کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ ابن حبیب اور ابن قیم وغیرہ۔
لیکن بعض اہل علم نے یہ احتمال بھی پیش کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کا علاج تجویز فرمایا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں تکلیف نہیں تھی بلکہ سینے میں کوئی مسئلہ تھا، جیسا کہ امام خطابی فرماتے ہیں:
«ويشبه أن يكون سعد في هذه العلة مصدوراً إلاّ أنه قد كنى بالفؤاد عن الصدر إذا كان الصدر محلاً للفؤاد ومركزاً له، وقد يوصف التمر لبعض علل الصدر». [معالم السنن 4/ 224]
’بظاہر یہ لگتا ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ کے سینے میں بیماری تھی، لیکن یہاں صدر کی بجائے فواد کا لفظ اس لیے بولا گیا کیونکہ دل بھی سینے میں ہی شمار ہوتا ہے، کیونکہ کھجور سینے کی بعض امراض کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ کو دل کی بیماری کا ذکر ہے، لیکن اس میں بیماری کی نوعیت کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ کو کیا مسئلہ تھا، جس کے لیے عجوہ کھجور تجویز فرمائی گئی۔ اور اگر امام خطابی وغیرہ کی بات کو دیکھا جائے تو یہ مسئلہ دل کے امراض سے نکل کر سینے اور معدے کے مسائل سے متعلق ہو جاتا ہے۔
ابو نعیم الاصبہانی نے اس حدیث کو درج ذیل باب میں ذکر کیا ہے:
«باب أوجاع الصدر والمعدة والخفقان والفؤاد». [الطب النبوي1/ 401]
سینہ، معدہ، گھبراہٹ اور دل کے امراض کا باب.
بالخصوص معدے اور ہاضمے کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے سینے کی جلن اور دل کی گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے۔ اور جب ان مسائل کا علاج کیا جاتا ہے، تو ظاہری بات ہے اس سے دل کو بھی راحت اور سکون ملتا ہے۔ اب اس کو اس معنی میں بھلا دل کا مسئلہ ہی کہا جائے، لیکن در حقیقت اس کی وجہ دل نہیں، بلکہ سینہ اور معدہ ہے۔ واللہ اعلم۔
اس بات کو آپ مزید ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ کو ہاضمے کا مسئلہ ہے، جس وجہ سے آپ کے سینے میں جلن اور دل کو گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے، آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں، وہ آپ کو ایسی دوائی دے جو آپ کے ہاضمے کو ٹھیک کر دے اور اس وجہ سے آپ کے سینے کی جلن اور دل کی بے چینی اور اضطراب ختم ہو جائے، تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ کو دل کا مسئلہ تھا، اور ڈاکٹر نے آپ کو دل کی دوائی دی ہے.. وغیرہ۔
کون سی دوا تجویز کی گئی تھی؟
مجاهد عن سعد والی روایات میں سات عجوہ کھوروں کو گٹھلیوں سمیت پیس کر کھلانے کا ذکر ہے، جس کو ’وجیئۃ’ کہا جاتا ہے۔
جبکہ محمد بن سعد عن أپیہ والی روایات میں عجوہ کھجور، دودھ، گھی کا مکسچر بنا کر پلانے کا ذکر ہے۔ جس کو ’فریقہ’ کہا جاتا ہے۔
امام خطابی نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے:
«حَدِيثِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم: أَنَّهُ عَادَ سَعْدًا فَوَصَفَ لَهُ الْوَجِيئَةَ».
پھر حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«الوَجيئَةُ التّمرُ يُبَلّ بلبَن أو سَمْن حتى يلزَمَ بعضُه بعضا ويؤكل». [غريب الحديث1/ 195]
اس کے نام حدیث کے الفاظ “فلْيَجَأهُنَّ بنواهن” سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح روزے کے فوائد والی حدیث میں بھی لفظ ’وجاء’ اسی سے ہے۔
پھر محمد بن سعد عن أبيه والی روایت کے حوالے سے فرماتے ہیں:
«أَنَّهُ وَصَفَ لَهُ الْفَرِيقَةَ… والفَرِيقَةُ نَحوٌ من الوَجيئة». [غريب الحديث – الخطابي 1/ 195]
جبکہ ابن حبیب نے عجوہ کے ساتھ قسط ہندی، ورس اور زیت کا اضافہ کیا ہے، لیکن یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
“وفي التَّمر خاصِّيَّةٌ عجيبةٌ لهذا الدَّاء، ولا سيَّما تمر المدينة، ولا سيَّما العَجْوة منه”. [زاد المعاد ط عطاءات العلم 4/ 134]
یعنی اس قسم کی بیماری میں کھجور عجیب نفع بخش تاثیر رکھتی ہے، بالخصوص مدینہ کی کھجور اور بالخصوص عجوہ کھجور۔
لیکن امام صاحب نے اس کے ساتھ اس پر بھی تفصیلی گفتگو فرمائی ہے کہ مختلف علاقے اور وہاں کے موسم کی گرمی سردی کے حوالے سے دواؤں اور غذاؤں کی تاثیر میں فرق ہوتا ہے۔ لہذا بعض چیزیں کچھ لوگوں کے لیے غذا، کچھ کے لیے دوا اور کچھ کے لیے زہر کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہیں۔ فرماتے ہیں:
«والتَّمر يدخل في الأدوية والأغذية والفاكهة. وهو يوافق أكثر الأبدان، مقوٍّ للحارِّ الغريزيِّ، ولا يتولَّد عنه من الفضلات الرَّديئة ما يتولَّد عن غيره من الأغذية والفاكهة؛ بل يمنع لمن اعتاده من تعفُّن الأخلاط وفسادها.
وهذا الحديث من الخطاب الذي أريد به الخاصُّ كأهل المدينة ومن جاورهم. ولا ريب أنَّ للأمكنة اختصاصًا بنفع كثيرٍ من الأدوية في ذلك المكان دون غيره، فيكون الدَّواءُ الذي ينبت في هذا المكان نافعًا من الدَّاء، ولا يوجد فيه ذلك النَّفع إذا نبت في مكانٍ غيره، لتأثير نفس التُّربة أو الهواء أو هما جميعًا؛ فإنَّ في الأرض خواصَّ وطبائعَ يقارب اختلافها اختلافَ طبائع الإنسان. وكثيرٌ من النَّبات يكون في بعض البلاد غذاءً مأكولًا، وفي بعضها سَمًّا قاتلًا. وربَّ أدويةٍ لقومٍ أغذيةٌ لآخرين، وأدويةٍ لقومٍ من أمراضٍ هي أدويةٌ لآخرين في أمراضٍ سواها، وأدويةٍ لأهل بلدٍ لا تناسب غيرهم ولا تنفعهم». [زاد المعاد 4/ 136]
حدیث سے حاصل ہونے والے مزید فوائد:
1. مریض کی عیادت سنت نبوی ہے، جیسا کہ دیگر کئی احادیث سے اس کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔
2. عجوہ کھجور کی اہمیت و فضیلت اور اس کا بابرکت ہونا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ دیگر کئی روایات سے ثابت ہے کہ یہ زہر اور جادو میں فائدہ مند ہے، اس روایت سے اضافی بات پتہ چلی کہ یہ مزید کچھ امراض کے لیے مفید ہے، جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
3. عیادت کرتے ہوئے مرض والی جگہ پر ہاتھ رکھنا بھی مسنون ہے. ابن رسلان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“فيه أن من تمام عيادة المريض أن يضع العائد يده على المكان الذي ضعف به، فإن كان الموجوع رأسه فيضع يده على رأسه وإن كان فؤاده فيضع يده على فؤاده وليسأله كيف هو». [شرح سنن أبي داود له 15/ 585]
لیکن یاد رہے کہ یہ اس صورت میں ہے، جب مرض کی جگہ پر ہاتھ رکھنا ممکن ہو اور مریض کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔
4. امام ابو نعیم الاصبہانی نے اس سے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا ہے کہ ہاتھ کے ذریعے ٹٹول کر مرض کی تشخیص کرنا بھی جائز ہے، چنانچہ اس حدیث کو ایک جگہ ذکر کرتے ہوئے اس پر باب قائم کرتے ہیں:
«باب في معرفة الأمراض بالجس». [الطب النبوي1/ 191]
’جس’ سے مراد ہے کہ ہاتھ کے ذریعے جسم کے اوپر سے ٹٹول کر مرض کی تشخیص کرنا۔
5. مرض کا علاج معلوم ہو تو اس کے لیے نسخہ بتانا بھی مسنون ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا، البتہ اس میں ساتھ یہ ادب بھی ہے کہ خود علاج بتا کر تاکید کے لیے طبیب اور ڈاکٹر کی طرف رہنمائی بھی سنت ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج تجویز فرمایا، لیکن ساتھ اس وقت کے طبیب حارث بن کلدہ کی طرف رہنمائی بھی کی۔
شارحِ مشکوۃ تورپشتی فرماتے ہیں:
«ويشكل من هذا الحديث: أنه نعت العلاج، ثم أحاله إلى الطبيب، ثم أمر الطيب باستعمال ما نعته. والوجه في ذلك أن نقول: إنما صنع ذلك لتحققه بأن رأي الطبيب يوافق قوله، فأحب أن يصدقه ويشهد له بالإصابة، أو كان إحالته إلى الطبيب لعلمه باتخاذ الدواء والصنعة فيه وحذقه بكيفية الاستعمال، وذلك من الأبواب العملية، وقلما يوجد ذلك إلا من كثرة الممارسة منه». [الميسر في شرح مصابيح السنة للتوربشتي 3/ 960]
6. علاج وغیرہ جیسے دنیاوی معاملات میں غیر مسلم سے مدد لینا جائز ہے، جیسا کہ حارث بن کلدہ سے مدد لی گئی۔
تورپشتی فرماتے ہیں:
«والحارث بن كلدة الثقفي… لم يصح إسلامه. ويستدل بهذا الحديث على جواز مشاورة أهل الكفر في الطب إذا كانوا من أهله، وابنه الحارث بن الحارث بن كلدة يعد في المؤلفة قلوبهم». [الميسر في شرح مصابيح السنة 3/ 960]
حاصلِ کلام:
اس سب تفصیل کے بعد اگر اوپر ذکر کردہ سوال کے جواب کی طرف آئیں تو خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت کرتے ہوئے ان کے لیے دوا تشخیص کی تھی، اتنی بات تو ثابت ہے۔ لیکن انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا، اس کی کوئی دلیل نہیں، ہو سکتا ہے انہیں دل کی کوئی اور بیماری لاحق ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ کوئی اور بیماری ہو، جس کا براہ راست دل کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
پھر اس بات کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ یہ مسئلہ سب سے پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی پیش آیا تھا۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ذکر کردہ دوا اور نسخہ یعنی عجوہ کھجور وغیرہ یہ ایک بابرکت اور مفید پھل، غذا اور دوا ہے، لیکن دل وغیرہ یا جسم کے کسی بھی حصے کے لیے بطور دوائی اس کو کھانے سے پہلے ماہر طبیب اور ڈاکٹر سے تشخیص ضروری ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کی روحانی، جسمانی، ظاہری، باطنی بیماریوں اور علل و امراض سے شفا عطا فرمائے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
فیہ نظر ، امام ابو نعیم الأصبھانی کی ذکر کردہ سند آپ نے دیکھی ہے ، سیدنا سعد رضی الله عنہ کا مکہ میں شدید بیمار ہونا اور حجة الوداع کے اس موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا عیادت کے لیے تشریف لانا ،انہیں دم کرنا ان کے شفا کی دعا فرمانا جیسے الفاظ سے حدیث صحیحین وغیرہ میں مختلف طرق سے بیان ہوئی ہے اور ان کے بیٹے عامر بن سعد، عائشہ بنت سعد بیان کرتے ہیں تو شیخین نے صحیحین میں وہ زائد الفاظ جنہیں دیگر روایت کرتے ہیں بیان نہیں کرتے، پھر ثقات کی جماعت اس روایت کو بیان کرتی ہے، کوئی ابوداود، ابو نعیم والی روایت کا متن بیان نہیں کرتا تو محفوظ اور صحیح حدیث صحیحین کی ہی ہے۔
ابو نعیم والی سند بھی ثابت نہیں ہے، اگر ثابت بھی ہو تو متن میں نظر ہے ابن کلدہ کیا تب حجة الوداع کے موقع پر موجود تھا اور تب تک اس کا زندگی رہنا ثابت ہے ۔ یہ ساری زیادت ثقات حفاظ کیوں بیان نہیں کرتے ہیں، شیخین نے اس زیادت کو ذکر کیوں نہیں کیا ہے یا کسی ثقہ حافظ نے کیوں ذکر نہیں کیا ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
بارک اللہ فیکم
إعلال بالمخالفۃ کے لیے مخرج کا متحد ہونا ضروری ہے. صحیحین وغیرہ والی روایات کا اس روایت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اسانید میں کہیں مدار یا ملتقی موجود ہے؟
ایسی کوئی صورت حال ہوتی تو یقینا ائمہ علل اس پر اس ناحیے سے کلام ضرور فرماتے، جو کہ کہیں نظر نہیں آتا۔
ویسے بھی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سے زائد مرتبہ بیمار ہوئے ہیں اور ان کی بیماری سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں. سب کو ایک ہی واقعہ پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
آپ صحیحین کے متن کو جمع کر کے دیکھیں تو آپ کو اس روایت کے اکثر الفاظ اس میں ملیں گے، راوی بھی خود سعد رضی الله عنہ ہیں، جب ایک روایت کو کئی لوگ بیان کرتے ہیں تو اختصار واجمال ، مفصل بیان کر دیتے ہیں یعنی کوئی روایت کا ایک حصہ تو کوئی دوسرا حصہ بیان کرتا ہے۔ جیسے عیادت کرنا ، جسم پر ہاتھ مبارک پھیرنا اور آپ کا ٹھنڈک وسکون محسوس کرنا، یہ الفاظ صحیحین میں موجود ہیں۔
ابو نعیم کی روایت جیسے الفاظ صحیح مسلم میں اس طرح ہیں۔
“ﻭﻟﻌﻠﻚ ﺗﺨﻠﻒ ﺣﺘﻰ ﻳﻨﻔﻊ ﺑﻚ ﺃﻗﻮاﻡ، ﻭﻳﻀﺮ ﺑﻚ ﺁﺧﺮﻭﻥ”
ائمہ کا علت بیان کرتے ہوئے علل کے تمام اسباب بیان کرنا ضروری تو نہیں ہوتا ہے، نہ ہی ائمہ علل نے کتب علل میں ساری روایات کا احاطہ کیا ہوا ہے، آج بھی ہم کئی روایات ہیں ، جب دراسہ کرتے ہیں، تو ائمہ علل کے منہج و تعامل کے مطابق کہیں مخالفت کہیں خطاء اور کہیں شاذ جیسی علل سامنے آ رہی ہوتی ہیں، باقی ابن عینیہ سے کئی لوگوں کا بیان کرنا تب فائدہ دے جب سند ثابت ہو، پہلے ابو نعیم والی سند تو دیکھ لیں شیخ۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
شیخ آپ جس علت کی بات کر رہے ہیں، اس کی تائید میں اہلِ علم میں سے کوئی کلام ڈھونڈیں۔ مجھے ائمہ کے کلام میں اس کا ذکر کیا، اشارہ تک نہیں مل سکا..
پھر بھی میں نے اپنی تحقیق پیش کر دی ہے. آپ جو مناسب سمجھتے ہیں بیان فرما دیں.. حتی تعم الفائدة ويكثر النفع!! بارک اللہ فیکم!
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
بارك الله فيكم
ہم دونوں نے اپنی طرف سے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔
ولكل وجهة
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ