سوال
ایک خاتون کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، تین بیٹیاں ہیں، گھر اور گاڑی ذاتی ہے، دس تولے سونا بیٹیوں کے لیے رکھا ہے، لیکن کوئی روزگار نہیں، بینک بیلنس نہیں، ضروت مند ہیں۔ کیا ان خاتون کو ان کی سگی بہن زکوٰۃ دے سکتی ہیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
جب انکے گھر میں دس تولے سونا اور گاڑی وغیرہ موجود ہے تو انکو زکاۃ کیسے دی جاسکتی ہے؟ جبکہ یہ خود صاحب نصاب ہیں، دس تولے سونا اور گاڑی سنبھال کر رکھنا اور لوگوں کی زکاۃ پر نظر رکھنا غیر مناسب رویہ ہے۔ بیٹیوں کو دینے کے لیے سونا سنبھال کر رکھنا کیا یہ شرعی ضرورت ہے؟
زکاۃ غریب اور فقراء و مساکین کا حق ہے، اور فقیر و مسکین وہ ہوتا ہے جسکے اخراجات آمدن سے زیادہ ہوں، اس کے پاس ضروریات سے زائد مال نہ ہو، یعنی صاحب نصاب نہ ہو۔
لہذا ان پر اس طرح کے کسی بھی حیلے سے فقیر یا مسکین کا اطلاق نہیں ہوسکتا، اگر زکاۃ کے لیے اس طرح کے بہانے ڈھونڈے جائیں، پھر تو دنیا میں بڑے بڑے فیکٹری مالکان بھی مستحقِ زکاۃ بن سکتے ہیں۔ اگر ان کا گزر بسر نہیں ہورہا تو یہ سونا بیچ کر یا گاڑی رینٹ پر دیکر اپنے روزگار کا بندوبست کریں۔
ہاں اگر ماں ان بچیوں پر ظلم کرتی ہے، انکو بھوکا مار رہی ہے اور انکی کفالت نہیں کر رہی تو پھر اس صورت میں خالہ ان بچیوں کو زکاۃ دے سکتی ہے۔ لیکن اگر ماں سونا وغیرہ بیچ کر یا کسی اور ذریعہ آمدن سے انکی خوراک و پوشاک کا بندوبست کرتی ہے، انکا خیال رکھتی ہے تو پھر یہ حیلہ بناکر کہ سونا بچیوں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ بچیوں کے نام پر زکاۃ اکٹھی کرنا اور اپنے سونے کی زکاۃ نہ دینا درست اور جائز نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ