سوال (2562)
“وقَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ هُوَ الْأَزْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ : أَذِنَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا، فَبَعَثَ مَعَهُنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ” [صحيح البخاري : 1860]
«امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے احمد بن محمد نے کہا کہ ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ان کے داد (ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف ؓ) نے کہ عمر ؓ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو حج کی اجازت دی تھی اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو بھیجا تھا»
کیا صحیح البخاری کی اس روایت سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ عورت بغیر محرم کے حج پہ جا سکتی ہے؟
جواب
شیخ مجھ طالب علم کی رائے یہ ہے کہ یہ حدیث رفقہ مامونہ کی شرط لگانے والوں کی مضبوط دلیل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی جواز کے قائل ہیں کہ جب عورت کو فتنے کا خوف نہ ہو۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق وہ جوان اور بوڑھی عورت میں فرق کے قائل ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ رفقہ مامونہ کی شرط لگاتے ہیں۔
لہذا یہ حدیث بظاہر ان ائمہ کی ایک مضبوط دلیل ہے۔
اگر ہم اس میں تاویل کریں تو یہی کہیں گے کہ وہ چونکہ امت کی مائیں ہیں، لہذا پوری امت ان کی اولاد ہے، لیکن یہ تاویل اس وجہ سے درست نہیں کہ پردے کے احکام امہات المومنین کے لیے مزید تاکیدی ہیں۔۔
ایک احتمال یہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ حدیث میں وضاحت نہیں کہ امہات المومنین کے محارم موجود نہیں تھے- اس بات کا احتمال ہے کہ موجود ہوں لیکن مذکور نہ ہو!
لیکن یہ احتمال بھی حدیث کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کمزور ہے۔
اسی طرح حدیث حیرہ بھی دلیل ہے کہ عورت اگر مامونہ ہو تو حج یا عمرے کا سفر کر سکتی ہے،
اگرچہ اس حدیث میں مستقبل کی پیشن گوئی ہے اور ہر پیشن گوئی سے استدلال درست نہیں لیکن اس حدیث میں جو پیشنگوئی ہے وہ بطور مدح کے بیان کی گئی ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ “لا تخاف احدا الا الله ” اس پر دلالت کرتے ہیں۔۔
نیز شرعی قاعدہ: “لا يجوز تاخير البيان عن وقت الحاجه”
بھی یہاں صادق آتا ہے۔
واللہ اعلم ۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ