سوال (2911)
سجدہ کی حالت جب دعاؤں کو جمع کیا جائے گا تو صرف پہلی دعا جو ہے وہ تو کم از کم تین دفعہ پڑھی جائے گی، اب اس کے بعد جو سجدے کی اور مسنون دعائیں ہیں، وہ بھی کم از کم تین دفعہ پڑھی جائیں گی یا پھر وہ ایک دفعہ یا دو دفعہ بھی پڑھ لی جائیں تو ٹھیک ہے۔
جواب
پہلی دعا ہو یا مسنون دوسری اور تیسری دعائیں ہوں، وہ آپ جتنی بار چاہیں پڑھ سکتے ہیں، تین اور دس دفعہ پڑھنے والی روایات میں کلام ہے، لہذا اس لیے آپ آزاد ہیں، آپ ایک دفعہ، دو دفعہ یا تین دفعہ پڑھ لیں، بس یہ دیکھ لیں کہ اگر آپ امام ہیں تو مقتدی کا خیال رکھیں، اس وقت آپ نماز میں تخفیف کریں، باقی اکیلے ہیں تو اس وقت طول دے سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
“سبحان ربی الاعلیٰ” کی تعداد کا ذکر ہے، وہ بھی مضبوط بات نہیں ہے، باقی دعاؤں کی تعداد کا ذکر نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
رکوع و سجود میں کم از کم تین بار تسبیح کہنا مستحب ہے، اس سے زیادہ جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے کہ شریعت میں کوئی قید وحد بیان نہیں ہوئی ہے، نہ ہی فعل و استحباب سے وجوب و قید ثابت ہوتی ہے، تسبیح کے تین بار کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل ملاحظہ فرمائیں:
ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻣﺎﻟﻚ اﻷﺷﻌﺮﻱ ﺟﻤﻊ ﻗﻮﻣﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ” ﻳﺎ ﻣﻌﺸﺮ اﻷﺷﻌﺮﻳﻴﻦ اﺟﺘﻤﻌﻮا ﻭاﺟﻤﻌﻮا ﻧﺴﺎءﻛﻢ، ﻭﺃﺑﻨﺎءﻛﻢ ﺃﻋﻠﻤﻜﻢ ﺻﻼﺓ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻟﺘﻲ ﺻﻠﻰ ﻟﻨﺎ ﺑﺎﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻓﺎﺟﺘﻤﻌﻮا، ﻭﺟﻤﻌﻮا ﻧﺴﺎءﻫﻢ ﻭﺃﺑﻨﺎءﻫﻢ، ﻓﺘﻮﺿﺄ ﻭﺃﺭاﻫﻢ ﻛﻴﻒ ﻳﺘﻮﺿﺄ، ﻓﺄﺣﺼﻰ اﻟﻮﺿﻮء ﺇﻟﻰ ﺃﻣﺎﻛﻨﻪ ﺣﺘﻰ ﻟﻤﺎ ﺃﻥ ﻓﺎء اﻟﻔﻲء، ﻭاﻧﻜﺴﺮ اﻟﻈﻞ ﻗﺎﻡ، ﻓﺄﺫﻥ ﻓﺼﻒ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻓﻲ ﺃﺩﻧﻰ اﻟﺼﻒ، ﻭﺻﻒ اﻟﻮﻟﺪاﻥ ﺧﻠﻔﻬﻢ، ﻭﺻﻒ اﻟﻨﺴﺎء ﺧﻠﻒ اﻟﻮﻟﺪاﻥ، ﺛﻢ ﺃﻗﺎﻡ اﻟﺼﻼﺓ، ﻓﺘﻘﺪﻡ ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻭﻛﺒﺮ، ﻓﻘﺮﺃ ﺑﻔﺎﺗﺤﺔ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﻭﺳﻮﺭﺓ ﻳﺴﺮﻫﻤﺎ، ﺛﻢ ﻛﺒﺮ ﻓﺮﻛﻊ ﻓﻘﺎﻝ: ﺳﺒﺤﺎﻥ اﻟﻠﻪ ﻭﺑﺤﻤﺪﻩ ﺛﻼﺙ ﻣﺮاﺭ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻊ اﻟﻠﻪ ﻟﻤﻦ ﺣﻤﺪﻩ، ﻭاﺳﺘﻮﻯ ﻗﺎﺋﻤﺎ، ﺛﻢ ﻛﺒﺮ، ﻭﺧﺮ ﺳﺎﺟﺪا، ﺛﻢ ﻛﺒﺮ ﻓﺮﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ، ﺛﻢ ﻛﺒﺮ ﻓﺴﺠﺪ، ﺛﻢ ﻛﺒﺮ ﻓﺎﻧﺘﻬﺾ ﻗﺎﺋﻤﺎ، ﻓﻜﺎﻥ ﺗﻜﺒﻴﺮﻩ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ ﺭﻛﻌﺔ ﺳﺖ ﺗﻜﺒﻴﺮاﺕ، ﻭﻛﺒﺮ ﺣﻴﻦ ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻰ اﻟﺮﻛﻌﺔ اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ، ﻓﻠﻤﺎ ﻗﻀﻰ ﺻﻼﺗﻪ ﺃﻗﺒﻞ ﺇﻟﻰ ﻗﻮﻣﻪ ﺑﻮﺟﻬﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: اﺣﻔﻈﻮا ﺗﻜﺒﻴﺮﻱ، ﻭﺗﻌﻠﻤﻮا ﺭﻛﻮﻋﻲ ﻭﺳﺠﻮﺩﻱ؛ ﻓﺈﻧﻬﺎ ﺻﻼﺓ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻟﺘﻲ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻟﻨﺎ ﻛﺬﻱ اﻟﺴﺎﻋﺔ ﻣﻦ اﻟﻨﻬﺎﺭ۔
[مسند أحمد بن حنبل : 22906 ، سنده حسن لذاته]
اس روایت کو موسوعہ حدیثیہ والوں کا ضعیف قرار دینا مرجوح اور خطاء پر مبنی ہے، جبکہ میری تحقیق میں یہ روایت علی الراجح حسن لذاته کے مرتبہ پر ہے۔
اس روایت کو میرا حسن قرار دیے جانے کا سبب:
شھر بن حوشب سے جب عبدالحميد بن بھرام روایت کریں تو روایت صحیح ہوتی ہے، ائمہ محدثین کی بعض تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
ابن أبی شیبہ نے کہا:
ﻭﺳﺄﻟﺖ ﻋﻠﻴﺎ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﺑﻬﺮاﻡ ﻓﻘﺎﻝ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺛﻘﺔ اﻧﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺷﻬﺮ ﺑﻦ ﺣﻮﺷﺐ ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻩ
[سؤالات ابن أبي شيبة : 55]
ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻲ( هو ابن المديني) ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ( هو ابن سعيد القطان) : ﻣﻦ ﺃﺭاﺩ ﺣﺪﻳﺚ ﺷﻬﺮ ﻓﻌﻠﻴﻪ بعبد اﻟﺤﻤﻴﺪ
[التاريخ الكبير للبخارى : 6/ 54 سنده صحيح]
ﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻗﺎﻝ ﻣﻦ اﺭاﺩ ﺣﺪﻳﺚ ﺷﻬﺮ ﻓﻌﻠﻴﻪ بعبد اﻟﺤﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﺑﻬﺮاﻡ
[الجرح والتعديل : 6/ 9 سنده صحيح]
ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻮﻳﻪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ اﺑﻦ ﺑﻬﺮاﻡ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺷﻬﺮ ﻣﻘﺎﺭﺏ ﻛﺎﻥ ﻳﺤﻔﻈﻬﺎ ﻛﺄﻧﻪ ﺳﻮﺭﺓ ﻣﻦ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻫﻰ ﺳﺒﻌﻮﻥ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻃﻮاﻝ
[الجرح والتعديل : 6/ 9،الكامل لابن عدى : 5/ 60 ، سنده صحيح]
یہ تعدیل خاص ہے اور ویسے بھی شھر بن حوشب صدوق ہے گو اس کا تفرد مطلقا مقبول نہیں ہوتا ہے، لیکن یہاں اس سے اس کے خاص تلمیذ روایت کر رہے ہیں اور روایت اشعری ہے اور متن میں کوئی چیز خلاف شرع نہیں ہے۔
فائدہ:
ہم نے مشکوۃ المصابیح کی تحقیق میں اس روایت کو نقل کیا ہوا ہے، تو آپ اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں رکوع کی تسبیح کو تین بار بیان کیا گیا ہے پھر مکمل نماز پڑھ کر بتایا گیا کہ یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز ہے، تو اس حدیث سے معلوم ہوا رکوع وسجود کی تسبیحات کم از کم تین بار پڑھنا مستحب ہے، اور اس کے علاوہ وہ جونسی بھی دعا پڑھے گا پڑھ سکتا ہے البتہ رکوع وسجود کی ثابت شدہ دعاؤں کو ایک سجدہ میں جمع کرنا تو یہ سنت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ دعائیں متعدد نمازوں میں پڑھی گئ ہیں ہاں بطور دعا پڑھنا چاہیں جیسے دیگر مسنون ادعیہ پڑھ سکتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
“ﺃﻗﺮﺏ ﻣﺎ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﻌﺒﺪ ﻣﻦ ﺭﺑﻪ، ﻭﻫﻮ ﺳﺎﺟﺪ، ﻓﺄﻛﺜﺮﻭا اﻟﺪﻋﺎء”
بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب حالت سجدہ میں ہوتا ہے سو تم دعا کی کثرت کا اہتمام کرو
[صحیح مسلم ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﻘﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭاﻟﺴﺠﻮﺩ: 482 ،سنن أبوداود: 875 ، مسند أحمد بن حنبل: 9461]
تو اس حدیث مبارک کے مطابق حالت سجدہ میں دعا کی کثرت کرنے پر ترغیب دی گئ ہے اس لیے جب خاص طور پر نمازی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو اسے سجدہ میں کثرت کے ساتھ دعا کا اہتمام کرنا چاہیے ہے کہ یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔
اور کثرت کا لفظ تین سے زائد پر بولا جاتا ہے لہزا آپ حالت سجدہ میں مسنون دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھ کر جتنی چاہیں دعا کی کثرت کا اہتمام کر سکتے ہیں چاہے وہ مسنون ہوں یا ان کے عربی الفاظ خیر و بھلائی پر مبنی ہوں انہیں پڑھا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ