سوال (2991)

سجدے میں جانے سے پہلے ہاتھ یا گھٹنے رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کریں۔ یہ بتائیں کہ کیا دونوں طریقے درست ہیں؟

جواب

دونوں طریقے صحیح ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

ویسے تو جواز دونوں کا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ “ولیضع یدیه قبل رکبتیه” یہ سنن الترمذی وغیرہ کے الفاظ ہیں، اس میں جو دعویٰ ہے کہ اس میں قلب واقع ہوگیا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، محل نظر ہے، راجح یہ ہے کہ پہلے ہاتھ رکھے جائیں، سلفی حضرات اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰه عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔ [سنن ابوداود : 840]
علامہ ابن القیم نے ابو ہریرہ رضی اللّٰه عنہ کی اس حدیث کو مقلوب کہا ہے اور کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے” وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھے” لیکن محدث عبدالرحمٰن مبارک پوری، علامہ احمد شاکر، شیخ البانی وغیرہ نے ابن القیم کے اس خیال کی تردید کی ہے اور ابن خزیمہ کا کہنا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰه عنہ کی روایت “پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیاگیا” انتہائی ضعیف ہے قطعاً قابل استدلال نہیں- لہذا سجدے میں جاتے وقت گھٹنوں سے قبل ہاتھ زمین پر رکھے جائیں گے.

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے

“اذا سجد احدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر و لیضع یدیه قبل رکبتیه”

جب تم میں سے کوئی ایک سجدہ کرے وہ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے پہلے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے پھر گھٹنے
کیونکہ “ان رکبة الانسان في الرجل و ركبة الانعام في اليد” انسانوں کے گھٹنے ان کے ٹانگوں میں ہوتے ہیں اور چوپایوں کے گھٹنے ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں
جیسے اونٹ کی مثال ہے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اس میں ان کے گھٹنے ہیں۔
واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث نیاز اثری حفظہ اللہ

اس کے بارے میں کوئی حدیث بھی ثابت نہیں ہے، امام ابن القیم نے تین وجوہ پر حدیث ابوہریرہ کو ضعیف قرار دیا ہے جن میں دو درست نہیں، البتہ تفرد راوی کی وجہ سے ضعف والی تیسری بات درست ہے، نیز انہوں نے معلوم کہنے والے آئمہ کے نام بھی ذکر کیے ہیں، دوسرا اس حدیث کا موقوف ابوہریرہ ہونا راجح ہے، اور اس میں یہ الفاظ نہیں جو مذکورہ حدیث مرفوع میں ہیں، تفصیل کے لئے علل احادیث الاحکام للطریفی دیکھیے، شیخ ابن باز اور دیگر کئی علماء کہتے ہیں کہ دونوں طرح درست ہے یہی راجح ہے واللہ اعلم
بعض علماء جیسے شیخ عبد الکریم الخضیر نے اسکی توضیح یوں کی ہے کہ اس سے مراد ہاتھ رکھنے اور گھٹنے رکھنے کی بحث نہیں ہے بلکہ چوپاؤں کی طرح بے تہذیبی اور جھٹکے سے زمین پر جا گرنا ہے اور حدیث ابوھریرہ جو موقوفا ہے وہ اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سائل: شیخ غالباً سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عمل پہلے گھٹنے لگانے والا بھی ثابت ہے؟
جواب: علل احادیث الاحکام میں تفصیل دیکھیے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

جی مصنف ابن أبی شیبہ میں سند صحیح سے ہے۔ بارك الله فيكم، دونوں طرح درست ہے، مرفوعا روایت کی صحت میں نظر ہے، ضعیف ہونا ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ