سوال
محترم!میں حالت نشہ میں دُھت اور چُور تھا ، اسی حالت میں نے کیا کیا، مجھے کچھ یاد نہیں ۔ صبح بیوی نے یہ دعویٰ کیا کہ رات آپ نے مجھے طلاق دی ہے ، حالاں کہ میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ مجھے اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے کہ رات کیا ہوا، جب کہ بیوی کہتی ہے کہ رات آپ نے طلاق دی تھی ۔ اس کے بعد ہم چار دن مسلسل اکھٹے رہے اور ازدواجی تعلقات بھی استوار رکھے، پھر میری اہلیہ اپنے والدین کے ہاں منتقل ہوگئی اور ابھی تک بدستور وہیں ہے ۔ اس کی اپنے والدین کے ہاں رہنے کی وجہ یہی ہے کہ میں نے حالتِ نشہ میں اسے طلاق دی ہے جس کے بارے میں ناواقف ہوں مجھے تو یہ تک یاد نہیں کہ رات کیا ہوا اور کیا نہیں !
شریعت اسلامیہ کی روشنی میں وضاحت درکار ہے کہ آیا اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟ کیا اب ہم میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر مذکورہ سوال درست ہے تو صورت مسؤلہ میں دو باتیں ملحوظ خاطر رکھیں !
شہ کرنا کبیرہ گناہ ہے:
ارشادِ باری تعالی ہے: ’شیطان شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت و نفرت کو پروان چڑھانا چاہتا ہے‘۔ [المائدة:91]
بعض روایات میں آیا ہے کہ شراب ’ام الخبائث‘ یعنی تمام خباثتوں کی ماں اور برائیوں کی جڑ ہے، اس ایک گندگی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان مسلسل مصیبتوں اور برائیوں میں پھنستا جاتاہے۔ [المعجم الأوسط للطبراني:3158، وضعفه الهيثمي في الزوائد:8172]
مزید یہ کہ شراب نوشی حرام ، اور قابلِ تعزیر جرم ہے۔ شراب پینے والا ایمان سے محروم ہوجاتا ہے [بخاری:6772] بلکہ شریعت میں شراب پینے پلانے والے، اس کو تیار کرنے والے، اس کو سپلائی کرنے والے، تمام لوگوں کو ملعون و مردود قرار دیا گیا ہے۔ [ترمذی:1295]
اس لیے ہم سائل سے گزارش کرتے ہیں کہ اس گناہ کبیرہ سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے، اس لت سے جان چھڑانے کے لیے فوری عملی اقدام کریں۔ ورنہ یہ انسان کے لیے ہر اعتبار سے تباہی ہی تباہی ہے۔
حالت نشہ میں طلاق کا حکم:
جہاں تک نشے کی حالت میں طلاق کا شرعی حکم ہے تو اگر آپ ہوش و حواس میں تھے تو رجعی طلاق واقع ہوگئی ہے لیکن اگر نشہ اس قدر زیادہ غالب تھا کہ آپ کو طلاق دینے کا کوئی علم نہیں اور آپ اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ تھے، جیسا کہ آپ نے بتایا تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے وقوع کے لئے ضروری ہےکہ طلاق دینے والا طلاق دیتے وقت عاقل، بالغ اور بااختیار ہو ۔ حالتِ نشہ میں طلاق واقع نہیں ہوتی جس کے دلائل درج ذیل ہیں:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقۡرَبُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنتُمۡ سُكَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعۡلَمُواْ مَا تَقُولُونَ [النساء: 43]
اے اہل ایمان! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ جب تک تمہیں معلوم نہ ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔
اس آیت کے مطابق جب نشہ کی حالت میں پڑھی ہوئی نماز معتبر نہیں تو پھر حالتِ نشہ میں دی گئی طلاق شرعا کیونکہ معتبر ہوسکتی ہے ؟
صحیح البخاری میں ہے:
“قالَ عثمانُ: ليسَ لِمجنونٍ ولا لسَكرانَ طلاقٌ”. [صحیح البخاری تعلیقا فی باب الطلاق فی الاغلاق والکره ووصله ابن أبي شیبة]
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ پاگل انسان اور نشی آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تصریح فرماتے ہیں:
“طلاقُ السَّكْرانِ والمُكرَهِ ليس بجائزٍ”. [صحیح البخاری تعلیقا فی باب الطلاق فی الإغلاق والکره]
کہ نشہ میں دھت انسان اور مجبور ومکرہ کی طلاق شرعا معتبر نہیں ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“رُفِعَ القلَمُ عَنْ ثلاثَةٍ: عنِ النائِمِ حتى يستيقِظَ، وعن الصبيِّ حتى يشِبَّ، وعنِ المعتوهِ حتى يعْقِلَ”. [البخاري تعلیقا بصيغة الجزم قبل حديث (5269) سنن أبی أبو داود موصولاً (4402)، والنسائي في «السنن الكبرى» (7346)، والترمذي (1423) واللفظ له، وابن ماجه (2042) مختصراً]
تین قسم کے آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے ۔ بچے سے یہاں تک کہ وہ جوان ہوجائے اور ایسے آدمی سے جس کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہو یہاں تک کہ عقل مند ہوجائے ۔
جب انسان نشہ کی حالت میں ہو تو اس کی عقل ماؤف ہو چکی ہوتی ہے اور وہ اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا ہوتا ہے لہذا مذکورہ حدیث کی بنا پر اس کی حالت نشہ میں دی ہوئی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لا طلاق ولا عتاق فی إغلاق». [سنن ابن ماجة: 2046]
طلاق اور آزادی عقل کے ماؤف ہو جانے میں نہیں ہوتی۔
شارحین نے اغلاق کے دو معانی بیان کیے ہیں:
(۱) جبر واکراہ (۲) عقل کا ماؤف ہوجانا ۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے : زاد المعاد لابن قیم : 203)
اس حدیث سےبھی ثابت ہوتا ہے کہ جبرا اور عقل ماؤف ہونے سےطلاق واقع نہیں ہوتی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“المراد بالمعتوه: الناقص العقل فيدخل فيه الطفل والمجنون والسكران والجمهور على عدم اعتبار ما يصدر منه”. [فتح الباری :393/9]
کہ ’’ العتوہ ‘‘ سے مراد عقل کا ناقص ہوناہے۔
السید محمد سابق مصری لکھتے ہیں:
’جمہور فقہاء کے نزدیک نشی کی دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ اس نے خود نشہ کے ذریعے اپنی عقل کو ضائع کیا ہے، جب کہ دوسرے اہل علم کا موقف ہے کہ نشی کی طلاق لغو اور فضول چیز ہے کیونکہ پاگل اور نشی کا حکم ایک ہے ، کیونکہ دونوں عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں، جس کی بنیاد پر انسان شرعی طور پر مکلف قرار پاتا ہے… عثمان رضی اللہ عنہ بھی اسی موقف کے قائل تھے کہ نشی کی طلاق واقع نہیں ہوتی اور بعض اہل علم کی تحقیق کےمطابق کسی صحابی کا حضرت عثمان کے اس فتویٰ پر اختلاف ثابت نہیں گویا صحابہ کااس فتویٰ عثمانی پر اجماع سکوتی ہوچکا ہے ۔ ایک قول کے مطابق امام احمد کا یہی مذہب اور فتویٰ ہے کہ نشہ میں دھت آدمی کی دی ہوئی طلاق شرعا واقع نہیں ہوتی ۔ شافعیہ میں سے امام مزنی اور حنفیہ میں امام طحاوی ، ابو الحسن الکرخی کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام داؤد ظاہر ی اور تمام اہل الظاہر کابھی یہی مذہب اور فتویٰ ہے، امام شوکانی رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہے، عدالتوں میں یہی فیصلہ دیا جاتا ہے کہ نشہ میں مکمل طور پر دھت آدمی کی طلاق شرعا معتبر نہیں ۔ (فقہ السنۃ بتصرف واختصار :2/248، 249)
خلاصہ یہ کہ نشہ کی وجہ سےعقل زائل ہوگئی ہویا اس میں اس قدر نقص وخلل واقع ہوگیا ہو کہ ہوش و حواس قائم نہ رہیں توایسے نشہ کی حالت میں دی طلاق معتبر نہیں ہے بلکہ ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق لغو اورکالعدم شمار ہو گی۔
لہذا یہ دونوں میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں، البتہ ہم میاں بیوی اور ان کے عزیزواقارب سے التماس کرتے ہیں کہ مذکورہ شخص کی نشہ جیسے مذموم ، حرام اور قبیح کام سے توبہ كروائیں اور وہ آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم مصمم کرے، نماز ، روزہ ، ذکرو اذکار ، صدقہ خیرات اور قرآن کریم کی تلاوت روزانہ فرمائیں ان نیکیوں کی برکت سے ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادے گا ۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب اہل خانہ کو سعادت مندی والی اور نیکوں و صلح و اتفاق سے بھر پور زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ هذا والله تعالى أعلم.
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
تحریر: (مولانا) محمدافضل اکرم بن محمد اکرم (حفظہ اللہ)
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ