آج کل جو سلفی پائے جاتے ہیں انکی چار قسمیں ہیں۔

١: سلفی عقیدہ و عمل کے لحاظ سے ۔
٢: سلفی صرف عقیدہ کے لحاظ سے ۔
٣: سلفی صرف عمل کے لحاظ سے ۔
٤: سلفی نہ عقیدہ کے لحاظ سے نہ عمل سے بلکہ صرف خاندانی لحاظ سے یعنی آبا و اجداد کی نسبت سے ۔

١۔ اور مولانا عطا اللہ حنیف مرحوم سلفی کی پہلی قسم کے نمایاں نماٸندہ اور نمونہ تھے انکا عقیدہ بھی صاف ستھرا تھا اور عملی طور پر بھی وہ شخصیت پرستی یا عقیدت مندی کے غلو سے پاک تھے ۔

٢۔ دوسری قسم میں وہ نجدی علما شمار کیے جاسکتے ہیں جو عقیدے میں سلفی ہیں لیکن عملی لحاظ سے ” حنبلی ” امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد ہیں۔

٣۔تیسری قسم میں وہ علما آسکتے ہیں جنہوں نے اپنی تفسیر وغیرہ میں معتزلہ وغیرہ کی تاویل اختیار کی یا معاشی نظام میں اشتراکیت کو ترجیح دی ہے لیکن عملی طور پر وہ غیر مقلد تھے۔

واضح رہے کہ غیر مقلد اور سلفی یا ” اہلحدیث” میں عموم و خصوص کی نسبت ہے غیر مقلد سلفی سے عام ہے۔

٤۔چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو صرف آبا و اجداد کے سلفی ہونے کے ناطے سلفی کہلاتے ہیں لیکن نہ وہ عقیدةً سلفی ہیں نہ عملاً ۔

آجکل سلفی تنظیموں میں یہ چاروں قسمیں پاٸی جاتی ہیں ۔

[ سلفیت کے نام پر کوٸی اجتماعی ادارہ یا تنظیم قاٸم کی جائے تو اس میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس کے عہدے دار وہ لوگ چنے جاٸیں جن کا تعلق پہلی قسم سے ہو ہاں ارکان میں ایسے لوگ بھی آسکتے ہیں جن کا دوسری قسم سے تعلق ہو باقی رہے تیسری اور چوتھی قسم سے وابستہ لوگ تو وہ معاون اور ہمدرد بن سکتے ہیں ان کو رکن بنانا یا کوٸی ذمہ دار منصب دینا بدنامی کا باعث ہوسکتا ہے ۔( جو خیر سے ہم برداشت کررہے ہیں ) ]

اشاعت خاص ہفت روزہ الاعتصام بیاد شیخ الاسلام مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ صفحہ نمبر ٥٧٠۔٥٧١ ۔

تحریر : ” مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللہ”

انتخاب: رانا عبداللہ مرتضی سلفی