“اعتدال کی بے اعتدالی” پر دوسرا اعتراض یہ تھا کہ غیر سلفی، یعنی بدعتی علماء یا انکی کتابوں سے استفادہ منہج سلف کے مغاير ہے۔ بدعتی کی علمی تعریف سے قطع نظر ان برہمن زدہ سلفیوں کا معھود ذہنی یہ ہے کہ ہر وہ شخص بدعتی ہے جو صد فیصد ان کے خیالی “سلفيت” کے سانچے میں ڈھل نہ جائے۔
سلفی کی حقیقی تعریف کیا ہے سلفی کون ہے اس پر آئندہ بات ہوگی۔
آج “سلفی برہمنوں” کے کئی خودساختہ اصولوں میں سے ایک اصول پر گفتگو ہوگی۔ غیر سلفی اہل علم سے استفادہ نہ کرنا انکا اپنا خودساختہ مفروضہ ہے، کوئی علمی اصول نہیں ہے، علمی اصول یہ ہے کہ ہر ایک کی غلطی پر رد کیا جائیگا، لیکن ہر ایک سے اخوت کا رشتہ نبھایا جائیگا، اور ان کی ہر کاوش سے استفادہ کیا جائیگا جس میں غلطی نہ ہو۔

انکا یہ اصول ابھی ماضی قریب میں ایجاد ہوا، سوشل میڈیا کے ذریعہ ” رویبضہ”گرے پڑے نا اہل بونوں کے دماغ میں بٹھا کر انھیں سنت و بدعت کے فتوے بازی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، جس سے اسلامی اخوت پارہ پارہ ہورہی ہے، اہل علم کی توہین ہو رہی ہے، اسلام بدنام ہورہا ہے۔ ساری امت جن کی خدمات کی معترف ہے، انھیں یہ بونے “غیر سلفی” کے ایک لفظ سے صفر کردیتے ہیں، اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپاکر اپنے آپ کو صاحب علم، صاحب دین، صاحب حق، پتہ نہیں اور کیا کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔
اس اصول کا وجود نہ قرون اولیٰ میں تھا اور نہ آج تک کسی قابل اعتماد سلفی عالم سے صراحتا منقول ہے ۔ ہاں بزعم خویش بعض “صلفیوں” نے اسے اپناکر اس پر سلفیت کا لیبل چپکا دیا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تاویل صفات کے سلسلے میں آپ سے گزارش ہے کہ ذرا تحقیق کر لیں، امام حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی، ابن حبان، ابوذر الھروی (سب سے مستند بخاری کی روایت کرنے والے، جسے ابن حجر نے سب سے زیادہ مستند نسخہ مانا اور فتح الباری کی شرح کے لیے اسی نسخہ پر اعتماد کیا) وغیرہ کا کیا موقف تھا، آپ کی تن آساں سلفیت شاید یہ زحمت گوارہ نہ کرے تو عرض کروں کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ یہ لوگ صفات کے سلسلے میں اہل کلام سے متاثر ہو گئے تھے، کیا ان کی روایتیں اور کتابیں چھوڑ دی گئیں؟
ابوذر الہروی کی تاریخ دیکھ لیں کہ انہی کی وجہ سے *اشعریت* مکہ، مدینہ، افریقا اور مغرب میں پھیلی تھی، پھر بھی ان کی امامت و عظمت کے سلف معترف رہے ہیں۔
آپ ذرا “سیر أعلام النبلاء” اٹھا کر دیکھ لیں، جن کو آپ اشعری یا ماتریدی یا اہل کلام یا حنفی کہہ کر نفرت سے دیکھتے ہیں، حقارت سے پیش آتے ہیں، رشتئہ اخوت کو پامال کرتے ہیں، ایسے دسیوں ائمئہ اشاعرہ، ائمئہ ماتریدیہ کو ہمارے سلف نے کچھ ایسے خطابات سے نوازا۔ “الامام العلامہ” “اوحد المتكلمين” ” مقدم الاصوليين”. امام ذہبی علم کلام میں ان کی امامت کے ساتھ ساتھ نہ صرف انہیں علامہ کہتے ہیں بلکہ ان کی تعریف بھی کرتے ہیں، یوں امام ذہبی بھی ان کی سلفیت کے معیار پر پورے نہ اتر سکے؟ یا للعجب۔
مذکورہ تعریفی الفاظ انہوں نے مشہور زمانہ اشعری عالم الباقلانی کی سیرت میں لکھے ہیں۔ اپ کو شاید پتہ ہو کہ علماء کی تعریف کے پل باندتھے ہوئے ہمارے ائمہ سلف پوری جرات سے لکھتے ہیں کہ وہ اشعری تھے ماتریدی تھے حنفی تھے، متشیع تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ کاش کہ کوئی “معتدل یعنی حقیقی سلفی” اس پر تحقیق کرتا تو ہمارے سلف کے اعتدال و انصاف کا ایک بے بہا قیمتی علمی اصول نکھر کے آتا کہ وہ کسی کو بدعتی بھی کہتےہیں اور ساتھ ہی اس کے فن میں اسے امام بھی مانتےہیں، اور اس کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے ہیں، اور اس سے استفادہ بھی کرتےہیں۔
کیا صاحب المصنف، عبدالرزاق الصنعانی کو کوئی نظر انداز کر سکتا ہے؟ احمد ابن حنبل اور ابن معین جیسے ائمہ رخت سفر باندھ کر ان کے پاس جاتے تھے اور زانوئے تلمذ طۓ کرتے تھے ۔ کیا ان کے متعلق “کان متشیعا” نہیں کہا گیا؟ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی سیرت میں انھیں امام، ثقہ سب کچھ لکھا، جب ان کے تشیع کا ذکر کیا تو انہیں بے وقوف تک لکھ دیا، لیکن اس کے باوجود وہ امام تھے، اور ہیں، کوئی بھی ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
کیا ابن الجوزی اشعری، کی کتابیں ہم نہیں پڑھتے؟ کیا نووی ابن حجر رحمہ اللہ کی لاثانی تالیفات سے آپ استفادہ نہیں کرتے؟
“الفرق بین الفرق” بغدادی سے کون استفادہ نہیں کرتا، حالانکہ وہ پکے اشعری تھے، کیا ہم “شہرستانی کی الملل والنحل” سے بے نیاز ہو سکتے ہیں، حالانکہ وہ خالص اشعری تھے۔
اور تو اور امام ابن حزم کو “کان جہمیا فی الصفات” کہا گیا اور جہمیہ کو اسلام سے خارج سمجھا گیا، اس کے باوجود بھی ابن حزم، کی امامت مسلم ہے، ان کی آراء کو وقعت سے دیکھا جاتا ہے، انکی سنت سے محبت کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ امام ذہبی نے ان کی کتاب “المحلی” کو  “دواوین اسلام” میں شمار کیا ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کی امامت کے قائل ہیں، ان کی تعریف کے پل باندھتے ہیں۔ اہل حدیث علماء ہمیشہ ان کی کتابوں سے استفادہ اور استدلال کرتے رہے ہیں، اپ کی خود ساختہ سلفیت کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
معاف رکھیں سلفیت ان کا کاروبار ہے، امت کو پارہ پارہ کر کے سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، سلفیت ان کے پاس اتنی ہی محدود ہے، جتنی محدود ان کی دوڑ ہے۔
کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ علماء صرف و نحو سیبویہ، مبرد،أخفش،الفراء، کسائی، ابن خروف وغیرہ سے نحو و صرف سیکھنے کے لیے کسی نے ان کی سلفی ہونے کی شرط رکھی ہو؟
کیا زمخشری کی “الکشاف” سے بہتر قران کی بلاغت کے اظہار میں کوئی تفسیر ہے؟ کیا ان کے اعتزال کے باوجود سلف ان سے استفادہ نہیں کرتے رہےہیں؟ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے متبعین اہل رائے اور ماتریدی ہونے کے باوجود بھی ائمہ سلف نے ان کی آراء کو اپنی فقہی بحثوں میں قابل ذکر سمجھ کر جگہ نہیں دی؟
رازی نے جادو کی حقانیت اور جادو کے سیکھنے کے طریقہ پر “السر المكتوم في السحر ومخاطبه النجوم” نام سے مکمل کتاب لکھی جو صریح کفریات سے بھری ہے، جس کی وجہ سے انہیں ملحد کہا گیا، ان کی تفسیر پر ابن تیمیہ کا تبصرہ”فیہ کل شی الا التفسیر” بڑا مشہور و مقبول ہے، اس کے باوجود بھی ابن تیمیہ اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں، ان کی کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ نے رازی کی المحصل اور الأربعين کی شرح بھی کی، اور اپنے شاگردوں کو کبھی کبھی پڑھاتے بھی تھے، ذیل طبقات حنابلہ میں امام ابن عبدالھادی کی ذکر کردہ تفصیل دیکھ لیں۔
امام غزالی صوفی، اشعری، فلسفی، پھر باطنی افکار سے بھی متأثر تھے، لیکن اصحاب سیر نے انہیں امام کی حیثیت سے ذکر کیا، اور ہمیشہ ان کی کتابوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن رشد کو ارسطو کا متبع اور اسکے افکار کا محافظ کہا، بہت سارے علماء نے تهافت الفلاسفة پر رد کی وجہ سے انہیں ملحد کہا۔ ان کا بائیکاٹ کیا گیا، گوشئہ تنہائی میں ان کا انتقال ہوا، پھر بھی ابن تیمیہ ان سے نقل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ نیز ان کی کتاب “بدایۃ المجتہد” آج بھی پڑھی، پڑھائی جاتی ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں بھی پڑھائی جاتی تھی، بدعتی کی تالیف سمجھ کر نہیں بلکہ کسی علمی ضرورت کی وجہ سے بعد میں دوسری کتاب سے بدل دیا گیا۔ ان کے قاعدہ کے مطابق تو پھر شیخ ابن باز، شیخ البانی، شیخ شنقیطی، محمد بن ابراہیم آل شیخ، جنہوں نے اسے جامعہ کے نصاب میں رکھا تھا، بھی سلفی نہ ٹہرے۔
امام ابن حجر سے نے “ھدى الساری فی مقدمہ فتح الباری” میں تقریبا 77 صفحات میں 69 ایسے راویوں کا ذکر کیا جو متکلم فیہ ہیں، اور بعض پر عقدی اور منہجی کلام بھی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ابن حجر نے سب کی وضاحت پیش کی، مجھے تو صرف اتنا کہنا ہے کہ باوجود متکلم فی العقیدہ والمنہج کے انہیں قبول کیا گیا، اور ان سے روایت کی گئی۔
ابن الوزیر الیمانی اپنے زمانے میں صحابہ کے دفاع میں “الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم” اور “العواصم و القواصم” جیسی معرکۃ الاراء کتابیں لکھیں جو اج تک کئی مرتبہ چھپ چکی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی زیدی فکر کا ان پر اثر تھا اسی لیے *علماء نے ان کی فکر کا تو رد کیا لیکن ان کی کتابوں سے استفادہ جاری رکھا*۔
کیا شیخ البانی رحمہ اللہ نے السید سابق حنفی، اخوانی لیڈر کی کتاب “فقہ السنہ” کی تخریج ” تمام المنة” کے نام سے نہیں کی؟ کیا اخوانی، حنفی یوسف القرضاوی کی کتاب “الحلال والحرام” کی شیخ البانی نے تخریج نہیں کی؟
یوسف قرضاوی کی کتاب الحلال والحرام کا اردو ترجمہ سب سے پہلے مولانا مختار احمد ندوی نے دار السلفية سے چھپا کر سارے ہندوستان میں مفت تقسیم کیا، اگر آپ میں جرات ہو تو ذرا انکی سلفیت پر انگلی اٹھائیں، پھر انکے وارثین میں *ارشد مختار عمری(مدیر جامعہ محمدیہ، مالیگاوں) آپ کو ایسا دوڈائنگے کہ آپ کو جمنا یا بحر عرب سے ڈوب مرنے کے لیے چلو بھر پانی بھی نہیں ملیگا*۔
کیا شیخ بن باز نے سید سابق اور یوسف قرضاوی، سید قطب اور محمد قطب اور ان جیسے اخوانی علماء کی کتابوں کو سعودیہ میں بکنے اور پھیلنے کی اجازت نہیں دی؟
کیا ابن باز رحمہ اللہ، نے ابن حجر کی فتح الباری پر تعلیقات نہیں لکھیں؟ پھر بھی وہ اسکا ہمیشہ درس دیتے رہے‌!؟ آپ کی طرح انھیں اشعری کہ کر ان کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔
کیا ذہبی دوراں، مورخ اہلحدیث، اسحاق بھٹی اپنی کتاب “ہفت اقلیم” میں مولانا مودودی، اور عبد القادر رائے پوری جو کہ صاحب طریقت بزرگ تھے، ابو الحسن ندوی، جن سے بیعت تھے، عطا اللہ شاہ بخاری دیوبندی وغیرہ کی بالتفصيل سوانح حیات نہیں لکھی؟
اسماعیل گجرانوالا سلفی اس صدی کے اساطین سلف میں سے تھے، انہوں نے شاہ ولی اللہ کی تعریف میں اور خدمات کے اعتراف میں “تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مسائل” کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب لکھی، جس کا عربی ترجمہ “حرکۃ الانطلاق الفکری” کے نام سے د۔ مقتدی حسن ازہری، وکیل جامعہ سلفیہ بنارس، نے کیا اور جامعہ سلفیہ بنارس نے اسے چھاپا۔ اپ کو معلوم ہے کہ نہیں شاہ ولی اللہ اپنی کئی کتابوں میں خالص صوفی، وجودی، ماتریدی، حنفی ہیں، لیکن پھر بھی اہل حدیث علماء نے ان سے استفادہ کے لئے ایک قاعدہ بنالیا “الشاہ ولی اللہ المحدث ولیس الشاہ ولی اللہ الصوفی”، یہ کہہ کر حقیقی سلفی علماء اج تک ان سے استفادہ کرتے ہیں، شاید اپ کی *صلفیت* انہیں اور ان کے متبعین کو بھی سلفیت سے خارج کر دے؟؟ “لیجیے بھائی جامعہ سلفیہ بھی خارج از سلفیہ ہوگیا”۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی “انفاس العارفین” دیکھیں جس میں انہوں نے صوفیت، بریلویت کے ہر ہر عقیدہ وعمل کو جائز قرار دیا۔ خود حجة اللہ البالغہ کے مقدمہ میں ذکر کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ان سے ملاقات کی، اور حسن حسین نے انہیں قلم دیا، اور حجة البالغہ لکھنے کا حکم دیا، اس کے باوجود بھی ہمارے سلفی علماء ان کا ذکر خیر کرتے رہے ہیں، اور انکی غلطیوں کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔
اپ کو تسلی نہ ہو تو تصوف کی تائید میں شاہ ولی اللہ کی القول الجمیل، الطاف القدس فی معرفة لطائف النفس، سطعات، ھمعات و لمحات وغیرہ جیسی کتابوں میں سے کسی ایک پر نظر ڈالیں۔
شاہ اسماعیل شہید کی “تقویۃ الایمان” اور “تنویر العینین في اثبات رفع الیدین” کی وجہ سے وہ ہندوستان میں سلفیت کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں ، اگر اپ انہی کی کتاب “عبقات” اور “صراط مستقیم” پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ وہ ابن عربی کی تعریف کرتے ہیں۔ وحدۃ الوجود وحدۃ الشہود وغیرہ کے قائل ہیں، انہوں نے سید احمد شہید سے بیعت بھی کی تھی۔
اپ کا بس چلے تو شاید آپ انہیں بھی اپنی برہمن نما سلفیت سے خارج کر دیں۔

سچی حقیقی سلفیت کا بلا اختلاف اصول یہ ہے کہ ایک ہی انسان میں خیر وشر، سنت و بدعت دونوں جمع ہوتے ہیں، اسکے خیر کی وجہ سے اس سے محبت ہوگی اور اس کے شر و بدعت کی وجہ سے اس سے بغض ہوگا، ایک ہی شخص میں اسباب تکریم اور اسباب عدم تکریم جمع ہوسکتے ہیں،اس کے اسلام کی وجہ سے اس کا احترام ہوگا اور اس کی بدعت کی وجہ سے اس کی عدم تکریم ہوگی، جیسے کسی فقیر کا ہاتھ چوری کی وجہ سے کاٹا جائیگا لیکن فقر کی وجہ سے بیت المال سے اس کی مدد بھی کی جائیگی۔ اس قاعدہ میں خوارج اور معتزلہ نے سلف کی مخالفت کی۔
دیکھئے :مجموع الفتاوى: (٢٨/ ٢٠٨)
مجھے ڈر ہے کہ یہ سلفیت کے نام پر خارجیت کے ہَتّھے نہ چَڑھ جائیں، انکی حرکتوں اور انداز سے تو یہی لگتا ہے کہ جسے یہ سلفی نہیں سمجھتے اس سے مکمل برات کا اظہار کرتے ہیں جو کہ خارجیت ہے۔
جو کچھ تم سے مجھے بولنا تھا بول چکا
بیان عشق کے طومار کو میں کھول چکا
(مضمون جاری)

شیخ محمد عبد السلام عمری مدنی         

امیر جمعیت اہلحدیث چنائی صدر مجلس علماء اہلحدیث تلنگانہ