” صالح دوست سفرحیات کا سہارا اور آداب دوستی “

دین فطرت اسلام انسانیت دوست دین ہے… دوستی، اخوت، محبت اور بھائی چارے کا درس دینے والا دین ہے!
محبت و یگانگت، الفت و زینت کو فروغ دینے والا دین ہے!
زندگی جینے کا نام ہے اور اس سے گزارنے کے لیے نیک سیرت اور صالح دوست خدا کا انعام ہیں!
دین حق نے دوستی کے آداب بتلائے ہیں اور اگر ہم ان آداب پر غور و فکر کریں تو ہماری زندگی اور دوستیاں مزید سراپا الفت، سفرحیات کا سہارا بن سکتی ہیں… اچھے دوست بنئے بھی اور بنائیے بھی!
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

والمؤمنون والمؤمنات بعضهم اولياء بعض (سورة التوبة: 71)

مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے انتہائی محبت فرماتے گویا ہر ایک یہ محسوس کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اسے ہی چاہتے ہیں!
ایک آدمی جب دوستوں سے مل جل کر رہتا ہے تو اسے تکالیف بھی پہنچتی ہیں! مشکلات اور اذیتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں… جذبات کو ٹھیس بھی پہنچتی ہے…كبھی مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے… آرام میں خلل بھی پیدا ہوتا ہے لیکن باوجود ان سب کے اخلاق ترقی کرتا ہے… ہمدردی و غمگساری، محبت و شفقت، خیرخواہی و تعاون کے جذبات نمو پاتے ہیں… اور انسان اپنے ساتھی کو رب کی رحمت کا سایہ سمجھتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ اس شخص سے بہتر ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر برداشتہ خاطر ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی)
ہمیشہ نیک اور صالح دوستوں کا انتخاب کیا جائے کیونکہ جن لوگوں سے قلبی تعلق بڑھایا جا رہا ہے اس پہلو کو بھی ضرور ذہن میں رکھا جائے کہ ان کے اخلاق و دین آپ کے لیے کسی حد تک مفید ہو سکتے ہیں؟؟
کیونکہ دوستوں کی صحبت تربیت پر اثر انداز ہوتی اور دوست ہمارا تعارف بن جاتے ہیں!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور برے دوست کی مثال خوبصورت انداز میں بیان فرمائی ہے کہ:
اچھے اور برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ ضرور ملے گا یا تو مشک خریدو گے یا مشک خوشبو پاؤ گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی تمہارا کپڑا جلائے گی یا اس کی بدبو کو پاؤ گے۔ (متفق علیہ)
اور سنن ابی داؤد کی حدیث میں الفاظ یہ ہیں:
نیک دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے کی دکان کہ اگر کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو ضرور آئے گی اور برا دوست ایسا ہے جیسے بھٹی سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے ضرور سیاہ ہو جائیں گے۔
ہماری محبت دوستوں کے ساتھ صرف خدا کے لیے ہو اور الله تعالیٰ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کے دین کی بنیاد پر باہم جڑ کر رہتے ہیں اور اقامت و اشاعتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنے والوں کی شان بتاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
قیامت والے دن  ایسے لوگ رب العزّت کے عرش کے سائے تلے ہوں گے۔ (الصحیح لمسلم)
دوستوں کے حقوق یہ ہیں کہ اسلامی نقطئہ نگار سے دوستی کی جائے، اچھے لوگوں کے انتخاب کے بعد اس دوستی کو عمر بھر نباہنے کی پوری کوشش کی جائے۔ دوستوں کے ساتھ ہشاش بشاش اور پراعتماد لہجے میں رہیے… افسردہ کرنے سے پرہیز اور بےتکلف اور خوش مزاج ساتھی ہونے کا یقین دلائیے!
سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
دوستوں کی محفل میں کشادہ چہرے اور مسرت کا اظہار کیجئے تاکہ احبابِ گرامی اکتائیں نہ گرانی محسوس کریں!
دوستوں کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی کا سلوک کیجیئے!
ان کی دنیا بنانے اور آخرت سنوارنے کی فکر کیجئے کہ دین تو نام ہی خیر خواہی کا ہے! جو اپنے لیے پسند کرو وہی بات، وہی چیز اپنے دوست کے لیے پسند کرو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
قسم ہے مجھے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ (صحیح البخاری)
مومن ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں اور مسلمانوں کو ایک عمارت سے تشبیہ دے کر اصلیت سمجھائی گئی کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے ایک دوسرے کو قوت پہنچاتا اور سہارا دیتا ہے جیسے ایک اینٹ دوسری اینٹ کو تقویت دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسری ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر تعلق اور قرب کو واضح کیا۔ (صحیح البخاری)
دوستی کے روپ میں دوستوں کا سہارا بننا اور ڈھارس بندھانے کا سبب بننا چاہیے!
یاس و حزن اور مردہ دلی کے کلمات زبان پر لانے کی بجائے شکروحمد کے ترانے وردزبان بنائیے!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نیکیوں کو حقیر نہ جانو چاہے وہ اتنی ہی ہو کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔(الصحیح لمسلم)
اور
تمہارا اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ (جامع الترمذی)
دوستی میں کسی بات پر اختلاف ہوجانا فطری بات ہے لیکن صلح اور اپنے قصور کا اعتراف کرنے میں دیر نہ کریں!
اپنے دوستوں کی اصلاح و تربیت سے غفلت نہیں برتنی چاہئے…آپ کا مخلص دوست اگر دین کی تعلیمات سے دور ہے… بے نماز ہے……. روزے سے جی کترانے والا… اور فرائض کی بجاآوری سے کوتاہی برتنے والا ہے تو بتدریج اس کی اصلاح کے لیے کوشاں رہیے!
اپنے اوپر ہونے والی تنقید کے لیے ہمہ وقت تیار رہئے…… اور خطاؤں کے اعتراف میں کوتاہی نہ برتئے! اس طرح آپ کا دوست ضرور راہ راست پر آئے گا اور اگر بالفرض نہ بھی آئے آپ نے تو حق دوستی ادا کر دیا ناں…!
محبت و اخوت کو بڑھاوا دینے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ضروری ہے!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو کہ آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دلوں کی کدورت جاتی رہے گی۔
وہ تحفہ خوشبو کا ہو سکتا ہے… کوئی اسلامک کیسٹ یا کتاب کا بھی ہو سکتا ہے۔ مقصد محبت کا اظہار اور خلوص ہو نہ کہ نمائش و برتری…!
انسانیت کو نفع پہنچانے اور راحت پہنچانے والا شخص خدا کے نزدیک بہت ہی محبوب ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ (جامع الترمذی)
دوستوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا… ان کے رازوں کی حفاظت کرنا آداب دوستی میں شامل ہے…بیمار دوست کی عیادت اور حوصلہ افزائی اور اگر ممکن ہو تو خدمت بھی بجا لانا…!
محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سمجھنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمیں عالی ظرفی، فراخدلی، تحمل، بردباری اور لوگوں کی فطری ضروریات، جذبات اور کمزوریوں کا لحاظ رکھنے کی طرف راہنمائی کرتی ہے…!
اپنی زندگی کو ایسے سانچے میں ڈال لیجئے کہ ہر طبیعت کا انسان اور ہر ذوق کا شخص آپ کی مجلس میں سکون پائے…!
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک مجلس میں ہر ذوق و طبیعت کی شخصیات موجود رہتیں…!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے سراپا حلم و شفقت بھی تھے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے برہنہ شمشیر بھی، جود و سخا میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بے مثال بھی… اور فاتح خیبر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے ماہر تلوار بھی…ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے فقیرمنش انسان بھی اور بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ بھی…! حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جنگ سے لرزنے والے اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے صاحبِ جمال بھی! لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بے مثال کی محبت تھی وہ اس قدر لحاظ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وہ مثالی جتھہ تیار کیا جو طبیعتوں کے باہمی اختلافات کے باوجود وہ بے مثال اتحاد و تعاون اور قابلِ رشک الفت کا نمونہ تھا کہ تاریخ انسانی ان صفحات اور کرداروں کو اپنی طویل عمری کا حاصل سمجھتی ہے…!
خدارا! اپنے دوستوں کے لیے دعاؤں کا اہتمام کیجئے! ان کے سامنے بھی اور عدم موجودگی میں بھی ان کا نام لے کر محبت کا اظہار کریں اور رب العالمین سے ان کے لیے رحمت و مغفرت کا سوال کریں!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور دعا کرنے کے سرہانے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرے تو فرشتہ آمین کہتا ہے۔ (الصحیح لمسلم)
اپنی دعاؤں میں درخواست کرتے رہے کہ:
الہ العالمین! ہمارے دلوں کو محبت و الفت سے بھر دے، کینہ و بغض کو دور فرما دے اور ہمارے دلوں کو جوڑ دے اور ہماری زندگیوں کو خوشگوار بنا دے۔
دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے کبھی کبھار کھانے کی دعوت کا اہتمام بھی کر دینا چاہیے۔ مقصد محبت و دوستی کی بڑھوتری اور اخلاص ہو نہ کہ کھانوں کی فراوانی کی نمائش…!
کہ یہ دوست سفرحیات کا سہارا بھی ہے اور حیات دنیاوی کی زینت بھی اور پھر صالح دوست مل جائیں تو قسمت کے کیا کہنے جو آپ کے دین و اخلاق میں ممدومعاون ثابت ہوسکیں…!
ایسی دوستی سے اجتناب کیجیے جو آپ کو بے راہروی کا شکار کرے… اخلاقیات کا ستیاناس کرے اور آپ کا برا تعارف بن جائے۔
سو خیرخواہ بنئے اور بنائیے اور قرآن کریم کی یہ عظیم ترین دعا ہمیشہ وردزبان بنائیے:

ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذين سبقونا بالايمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين امنوا ربنا انك رءوف رحيم۔
آمین یارب العالمین

 یاسر مسعُود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء
فاضل جامعہ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید لاہور

یہ بھی پڑھیں:کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ