بعض برخود غلط لوگ  سمع وبصر اور رؤیت کےلیے کان آنکھ جسم اورجہت وغیرہ کو عادی اسباب جانتے ہیں اور پھر  سمع  وبصر اور رؤیت کو ایک خاص قسم کا ادراک قراردیتے ہیں جس کے لیے کان آنکھ اورجھت وجسم وغیرہ ضروری نہیں ہوتے اورپھر اس خاص قسم کے ادراک کو سمع و بصر اور رؤیت کے لیے اصل معنی متعین کرتے ہیں اور قران و سنت میں وارد ان صفات کو اس معنی پر محمول کرتے ہیں۔

پھرساتھ مثبتِ صفات لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ جب ہم رؤیت سےجسم او جہت وغیرہ اورسمع وبصر سے کان آنکھ وغیرہ جیسے عادی اشیاء کو نکال دیتے ہیں تو پھر ادراک کا معنی بچتا ہے۔  تو کیا صفاتِ ید اورنزول وغیرہ میں آپ اس طرح کے معانی دکھاسکتے ہیں ؟ اگر ہاں تو دکھادو۔  نہیں دکھاسکتے تو بات ہی ختم ہوگئی ہے ، ہم پہلے تو الزاما عرض کرتے ہیں کہ آپ کلام میں اس طرح کا مفھوم دکھادیں اگر آپ کلامِ نفسی کا نام لیں گے تو ہم کہیں گے وہ توعرض ہے  اسی طرح ادراک بھی عرض ہے یہ دونوں مستقل صفات تو نہیں ہے آپ کیا جواب دیں گے ؟ اورپھرہم مثبت طور پر ان مغالطات کے بارے میں اپنے احباب کے لیے ادھر صرف چند اشارات ہی کرتے ہیں   پہلی بات یہ ہے کہ  سمع و بصراوررؤیت کے لیے کان آنکھ اورجھت وجسمیت کو عادی اسباب پہلے قطعی دلائل سے ثابت کرنا چاہئے یہ تواشاعرہ کافاسد مذہب ہے ہم اس بات کو دلائل وبراہین کے بغیر ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم اس بات کو مان بھی لیں کہ یہ عادی اسباب ہیں تو پھر ید کےلیے گوشت،  پوست، ہڈی  وغیرہ بھی عادی اسباب ہیں۔  اسی طرح نزول کے لیے جسم اورانتقال بھی عادی اسباب ہیں۔  اس طرح کا دعوی دیگر صفاتِ خبریہ میں بھی کیاجاسکتاہے اور بعض لوگوں نے کیابھی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے سمع و بصر اور رؤیت سب کو ادراک کی طرف راجع کیا ہے ، تو یہ ایک ہی مفھوم ہوا پھر انھیں اللہ تعالی نے الگ الگ صفات کیوں رکھاہے  اور تم لوگ اسے کیوں الگ الگ صفات قراد دیتے ہو؟

چوتھی بات یہ ہے کہ تمام اہلِ لغت نے سمع و بصر اور رؤیت کا ترجمہ ان عادی اسباب سے کیا ہے ، آپ نے کس دلیل کی بنیاد پر ایک خاص ادراک  کو اس کا ظاہر معنی قراردیا ہے؟ آپ ان الفاظ کے لیے ایک نئے مفھوم کے مدعی ہیں، لھذا پہلے آپ کو اس بات کے لیے قطعی دلائل دینے ہونگے کہ ان الفاظ کا ظاہر مفھوم  یہی ہے،  پھر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بھی قران وسنت میں یہی ہے ؟ پھر یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قران میں ایک صفت کی اثبات کے لیے اللہ تعالی مختلف الفاظ استعمال کرتے آئے ہیں ، (5) پانچویں بات یہ ہے کہ آپ کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگی کہ آپ کے وہ اشعری و ماتریدی اکابران مفاھیم کو نہیں سمجھ سکے تھے۔ اس لیے انھوں نے تاویل یاتفویض کے مسلک کواپنا لیا تھا۔  ورنہ جب ظاہر مفھوم یہ ہے،  تو پھر تفویض اور تاویل کی کیاضرورت پڑسکتی ہے ؟

واصل واسطی