مبینہ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں بارکھان سے تعلق رکھنے والے سینیئر حکومتی وزیر کھیتران کے مظالم کے خلاف خان محمد مری کی فیملی نےآواز اٹھائی تو اس فیملی کے آٹھ افراد اغوا کر لیے گئے۔ ابھی خان محمد مری کی اہلیہ اور اس کے دو بیٹوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی مل گئی ہیں جبکہ خاندان کے بقیہ افراد سردار کی نجی جیل میں تا حال قید ہیں۔ سردار نے ان کے علاوہ افراد کو بھی نجی جیل میں قید کر رکھا ہے۔ سردار کے ظلم کے خلاف خان محمد مری کی اہلیہ کی قرآن مجید پر دہائیاں سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی تھیں لیکن کسی طبقے نے توجہ نہ دی سوائے چند افراد کے۔
ہمارے علماء کا یہ دینی فریضہ ہے کہ جب جب ظلم کی کوئی داستان رقم ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں بلکہ تحریک چلائیں۔ یہاں ذرا سے اختلاف پر منہج کے نام پر اپنے ہی مسلک کے علماء کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیں گے۔ دو دو چار چار کلومیٹر کی پوسٹیں اور دو دو چار چار گھنٹوں کی لمبی لمبی تقریریں مخالف دینی نکتہ نظر رکھنے والے اہل علم کی گمراہی پر رقم کریں گے کہ جو پانچ وقت کا نمازی ہو گا، اندھیرے کے اوقات میں مسجد جاتا ہو گا، چوبیس گھنٹے باوضو رہتا ہو گا، اور اس قسم کے بیسیوں اعمال کرتا ہو گا کہ جن پر ایمان کی گواہی احادیث میں موجود ہو گی کہ جس میں یہ اعمال دیکھو، اس کے ایمان کی گواہی دو۔
دوسری طرف اشرافیہ، حکومتی اہلکاروں اور برسر اقتدار طبقے کا ننگا ظلم اور صریح فسق و فجور دیکھیں گے لیکن اس بابت دو لفظ ان کی زبان سے نہ نکلیں گے بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کو خوارجیت سے تعبیر کرنے لگ جائیں گے اور الٹا مظلوم کی مٹی پلید کریں گے۔ اور یہ سب کچھ دین اور سلف کے منہج کے نام پر کریں گے۔ یہی علمائے سوء در اصل اس امت کے بدترین لوگ ہیں جو ظالموں کے ظلم اور ان کے فسق فجور کے سامنے گونگے شیطان بن جاتے ہیں اور انہیں اپنے قول و فعل سے تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہیں اور دوسری طرف خورد بینیں لگا لگا کر اہل ایمان، اہل علم اور اہل عمل کی برائیاں تلاش کرنے کو نیکی سمجھے بیٹھے ہیں۔
انہی کے بارے حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا کہ مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگل جاتے ہیں۔ انہی کے بارے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ مجھے کوفیوں پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہماری قمیص پر مچھر کا خون لگا ہو تو نماز ہو جائے گی حالانکہ ان کی گردنوں پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خون ہے اور کبھی اس پر نہیں سوچا کہ ان کی نماز ہو جائے گی یا نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مدارس میں قرآن، حدیث اور فقہ وغیرہ کہاں اس انداز سے پڑھائے جاتے ہیں کہ جہاں طلباء کو معلوم ہو کہ اللہ کی شریعت کا سب سے اعلی اور بلند ترین مقصد فرد اور معاشرے میں عدل کا قیام اور ظلم کا خاتمہ ہے نہ کہ مخالف فرقے کا رد۔
بس ایسے علمائے سوء سے قطع تعلقی دینی فریضہ سمجھ کر کریں کہ جن کی زبانوں کے نیزے اور تیر ہمیشہ اہل ایمان کی طرف اٹھے رہتے ہیں اور ظالم اور فساق وفجار ہمیشہ ان سے راحت میں رہتے ہیں۔ یا تو خاموش رہو کہ نہ ادھر بیان اور نہ ادھر۔ اور اگر بولنا ہی ہے تو ظالموں اور فساق وفجار پر بھی بولو۔ اللہ عزوجل ان اہل علم کی حفاظت فرمائے جو اس گئے گزرے دور میں ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان علمائے حق کے ساتھ جڑ کر رہیں، چاہے کسی طبقے سے بھی ہوں۔ حق پر ہونے والا کبھی ظلم پر خاموش نہیں رہ سکتا۔
ایک ایک مسلک کے بیس بیس دھڑے بنے ہیں اور سب ایک دوسرے کی تغلیظ، تبدیع اور تفسیق میں کھپے ہیں۔ اور اس پر صدقات اور چندوں کی رقمیں خرچ ہو رہی ہیں۔ باہر معاشرے میں ظلم وبربریت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، شیطان ننگا ناچ ناچ رہا ہے، وہاں بولنے پر منہج خراب ہو جائے گا۔ کمال منہج ہے اور کمال دین داری ہے اور کمال قسم کا فالوور ہے۔
واللہ، ظلم کے خلاف جتنا اس ملک میں صحافی بولتے ہیں، علماء اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ باقی صحافی پیسوں کے لیے بولتے ہوں گے، اپنے مفاد کو بولتے ہوں گے، یہ بعد کی باتیں ہیں۔ علماء کی تقریر وتحریر، وعظ ونصیحت کا اصل موضوع ظلم کا خاتمہ اور عدل کا قیام ہونا چاہیے کہ دینی علم اور وحی کے علم کا اصل مقصد ہے لیکن ابھی دلی بہت دور ہے۔
ایچ ایم زبیر