سانحہ “پنجاب کالج” لاہور

سچ تو یہ ہے کہ
ملکی اداروں پر عوام الناس کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے بالخصوص ہماری عالیہ اور عظمی نے گذشتہ بیس سالوں میں جس طرح بازار حسن کا کردار ادا کیا اس کے بعد عوام کو بھڑکانے کے لیے بس کسی شیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
سردست عالیہ اور عظمی کے کردار پر بحث نہیں کہ مراعات کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست اور عدل و انصاف کے اعتبار سے سب سے نچلے نمبروں فائز کو بالاخر احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ان کی عزت سر بازار نیلام ہو رہی ہے۔
آمدم برسر مطلب!
کچھ ایام سے پنجاب کالج لاہور کے حوالے سے کسی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا معاملہ سوشل میڈیا پر شئیر ہونا شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے اس سوشل میڈیائی آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اعتماد تو پہلے ہی نہ تھا لہذا ہر بندہ اس میں حصہ بقدر جثہ لینے لگا۔
میں نے بھی ایک پوسٹ لگائی لیکن اس کے ایک دن بعد ہی محترم پروفیسر Usman Zahir حفظہ اللہ نے اپنی وال پر ایک پوسٹ لگائی جس میں یہ کہا گیا کہ یہ سارا واقعہ جھوٹا ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
پھر انہوں نے پرسنل واٹس اپ پر کچھ باتیں سامنے رکھیں تو فی الواقع شرمندگی سی ہوئی کہ کوئی پوسٹ لگانے سے پہلے اس کی تحقیق لازم ہے یا کم از کم حقائق سامنے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔
میں نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی لیکن ذہن میں یہ سوال مسلسل گردش کر رہا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور یہ سب کیوں ہوا اور کیسے ہوا ؟
کچھ صحافی ساتھیوں اور لاہور کے مقامی ساتھیوں اور پروفیسر عثمان ظہیر صاحب چونکہ خود اس کالج میں عرصہ دراز تدریس کرتے رہے ان کے ذریعے جو حقائق سامنے آئے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
اول:
ماسٹر مائنڈ نے سوشل میڈیائی آگ بڑھکانے کے لیے وقت انتہائی مناسب منتخب کیا کہ عین اس وقت جب اسلام آباد میں شنگائی تعاون تنظیم کا بین الاقوامی سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔
دوم:
ماسٹر مائنڈ جو بھی ہے اس نے اس سے پہلے ڈی چوک پر پی ٹی ائی کے دھرنے کے ذریعے اسلام آباد کو بند کرنے کا پروگرام بنایا جو ہماری سیکیورٹی فورسز نے بروقت کاونٹر کیا اور اسے ناکام بنایا۔
سوم:
خواب یہ تھا کہ بنگلہ دیش طرز پہ انقلاب لانے کا منصوبہ بنایا جائے۔ جس کے تحت ایک پرائیوٹ کالج میں جنسی زیادتی کا فرضی واقعہ رچایا گیا۔ اور پھر اس پر وی لاگز، ٹویٹس اور فیسبکی پوسٹس کروائیں۔ اور یہ آگ بھڑک اٹھی۔ طالب علم اٹھ کھڑے ہوئے اور ملک گیر احتجاج شروع ہو گیا۔ قریب تھا کہ انکا ملک دشمن منصوبہ کامیاب ہو جاتا۔ لیکن ہماری فورسز اور انٹیلی جنسز بروقت حرکت میں آئیں اور منصوبہ سازوں کو دھر لیا گیا۔
چہارم:
میں نے ذاتی طور پر تقریبا سات فیس بکی اکاونٹس چیک کیے جو اصل میں اس آگ کو بڑھکا رہے تھے اور حیران کن امر یہ تھا کہ یہ تمام اکاونٹس پی ٹی آئی کے عقیدت مندوں کے تھے۔ اب اس احتجاج کا پی ٹی ائی سے کیا تعلق ہے یہ تو ریاست جانے اور تحقیقی ادارے۔
پنجم:
دنیاوی تعلیمی اداروں میں خامیاں عیوب ضرور پائے جاتے ہیں لیکن انہیں مجسم شیطانی ثابت کرنا یہ ایک اور انتہا ہے جس پر ہمارے مذہبی ساتھی چلے جاتے ہیں۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حوالے سے کسی شیطانی ذہن نے ہمیں افراط و تفریط کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ منظم انداز میں کام کیا جائے اور دنیاوی تعلیمی اداروں میں دیندار ساتھیوں پہنچایا جائے تاکہ وہاں کی اصلاح کی جائے لیکن نہیں ہمیں تو تنقید کرنا سب سے اچھا لگتا ہے اور آسان بھی۔
ششم:
سمجھ لیں کہ علوم کی یہ تقسیم محض موضوع کے لحاظ سے ہے، اس کے معنی دین ودنیا کی تفر یق ہرگز نہیں ہے، چنانچہ دنیاوی علوم اگر بے ہودہ اور لایعنی نہ ہوں اور انہیں اخلاص و متابعت سنت اور بہترین و مفید شہری ہونے کی نیت سے حاصل کیا جائے تو وہ بھی بالو اسطہ رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اس کے برعکس اگر دینی علوم کی تحصیل کا مقصد محض دنیا ہو تو یہ علوم بھی بالواسطہ دنیا کے علوم کی صف میں آجاتے ہیںَ۔
ہفتم:
حیران کن امر یہ ہے کہ اتنا بڑا واقعہ ہوا مظلوم لڑکی کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں فیس بک پر ہی اس لڑکی کے حوالے سے دس سے زیادہ واقعات گردش کر رہے ہیں جتنے منہ اتنی زبانیں اور جھوٹ کے ویسے بھی ستر پہلو ہوتے ہیں جھوٹوں کے امام نے کہا تھا نا کہ میں ہر بات میں ستر پہلو رکھ کر بات کرتا ہوں۔ سب سے زیادہ معتبر بات اس لڑکی کی ہو گی جس کا ابھی تک کوئی قانونی یا طبی بیان ہمارے سامنے نہیں آیا۔ اور مزید یہ کہ جس لڑکی کے حوالے سے یہ سب کچھ کیا گیا وہ دو اکتوبر کے بعد کالج آئی ہی نہیں
ہشتم:
میری محدود معلومات کی حد تک ملزم کے حوالے سے کسی نے باقاعدہ کسی جگہ کوئی رپورٹ درج کروانے کی کوشش نہیں کی گارڈ اور کہیں گارڈ کی جگہ کوئی باثر شخص کہیں کوئی پروفیسر تو کہیں ایک ایم این اے تو کہیں صوبائی وزارت تعلیم کا اعلی عہدہ دار تو کہیں آرمی کا کوئی ریٹائرڈ کیپٹن
نہم:
ملکی معاشی صورت حال کچھ بہتری کی طرف اشارہ ہے، بین الاقوامی سربراہان کا اس طرح پاکستان آنا ایک مثبت اشارہ ہے اس احتجاج کی آڑ میں اسے سبو تاژ کرنا مقصود تھا
دہم:
اتنی ہی غیرت ہے تو اپنے گھر کی عورتوں کے کفیل بننے کی کوشش کریں انہیں حجاب میں رکھیں انہیں بازار کی زینت نہ بنائیں دینی تعلیم و شعور دیں۔ یہ بات صرف ان ساتھیوں سے کہہ رہا ہوں جو دنیا دار ہیں اور اس مظلوم بچی کے حق میں دھڑا دھڑ پوسٹیں کر رہے ہیں اس بچی کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا یا نہیں لیکن آپ اپنے گھر کو اور اپنے گھر کی خواتین کو کنٹرول کر لیں یہی بہت بڑا احسان ہو گا۔ تاکہ ایسا کچھ آپ کے گھر کی خؤاتین کے ساتھ نہ ہو۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے قرآنی نصیحت کہہ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ النور 19)

Indeed, those who like that immorality should be spread [or publicized] among those who have believed will have a painful punishment in this world and the Hereafter. And Allah knows and you do not know.
جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: معاشرے اور الحاد اور ملحد سے مکالمہ