سوال

حکومت نے سڑک کے اطراف میں عارضی کیبن (خیمے، کھوکھے) بنائے ہیں، تاکہ جو لوگ مہنگی دکانیں خریدنے یا ان کا کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ان کیبنوں میں اپنی دکان کھول سکیں۔ حکومت کی طرف سے اس کا پانچ ہزار روپے ماہانہ کرایہ مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن آفیسرز کے ذریعے یہ کیبن نما دکانیں الاٹ ہوتی ہیں، وہ اس کے لیے لاکھوں روپیہ رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں، تو کیا ان افسران کو رشوت ادا کر کے یہ کیبنز لینا اور ان میں کاروبار کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

رشوت لینا اور دینا دونوں حرام کام ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي‘‘. [سنن ابی داود:3580]

’رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور لینے والے فریقین پر لعنت فرمائی ہے‘۔

لہذا اصل تو یہی ہے کہ ان کیبنز کے حصول کے لیے رشوت دینے سے گریز کریں اور کوئی اور جائز کام تلاش کر لیں، لیکن اگر کوئی اور مناسب کام یا جگہ نہیں ملتی تو مجبورا ان کیبنز کے حصول کے لیے رشوت دینا جائز ہے۔ ایسی صورت میں رشوت لینے والا گناہ گار ہوگا، دینے والا نہیں۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ یہ لوگ جو کام کرنا چاہتے ہیں، یا جس چیز کی خرید و فروخت کرنا چاہتے ہیں وہ جائز کام ہونا چاہیے۔

اسی طرح اگر حکومت کی طرف سے کوئی معیار اور اہلیت مقرر کی گئی ہے، تو امیدوار کو ان شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے، اگر وہ ان شرائط پر پورا نہیں اترتا، لیکن رشوت کے ذریعے کام نکالنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسی صورت میں یہ بھی مجرم اور گناہ گار ہوگا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“إنَّ مَنْ أَهْدَى هَدِيَّةً لِوَلِيِّ أَمْرٍ لِيَفْعَلَ مَعَهُ مَا لا يَجُوزُ كَانَ حَرَامًا عَلَى الْمُهْدِي وَالْمُهْدَى إلَيْهِ، وَهَذِهِ مِنْ الرَّشْوَةِ الَّتِي قَالَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي. فَأَمَّا إذَا أَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً لِيَكُفَّ ظُلْمَهُ عَنْهُ أَوْ لِيُعْطِيَهُ حَقَّهُ الْوَاجِبَ: كَانَتْ هَذِهِ الْهَدِيَّةُ حَرَامًا عَلَى الآخِذِ وَجَازَ لِلدَّافِعِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَيْهِ”. [مجموع الفتاوى:31/278]

’بلا شبہ جس نے بھى کسی ذمہ دار کو كوئى ہديہ اس ليے ديا كہ وہ كوئى ايسا كام كرے جو اس كے ليے جائز نہ تھا تو ہدیہ دينے اور لينے والے دونوں پر وہ حرام ہے، اور يہ اسى رشوت ميں شمار ہو گا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اور اگر وہ اسے اس ليے ہديہ ديتا ہے كہ وہ اس پر ظلم نہ كرے، يا پھر وہ اس كا حق ادا كرے، تو يہ ہديہ لينے والے پر تو حرام ہوگا لیکن دينے والے كے ليے جائز ہوگا‘۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ