سوال (3419)

اب سردیاں چل رہی ہیں، اب اگر گرمیوں کے کپڑے خرید کیے جائیں تو سستے ملتے ہیں، ایک دوست کپڑے کے دکاندار کو کہتا ہے کہ میں آپ کو دو تین لاکھ روپے دیتا ہوں، آپ گرمیوں کا مال خرید لیں، اور مجھے سچ بتائیں کہ فی سوٹ کتنے کا ملا ہے۔ پھر جب سیل کریں تو ہر سوٹ کے بدلے مجھے 100 روپے نفع دینا ہے اور جو اصل رقم ہے وہ آپ مقرر کریں کہ مجھے کس طرح دینا ہے یا قسطوں میں دینا ہے، یہ بعد میں طے کرلیں گے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب

پیارے بھائی سود خالی یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو ادھار رقم دی جائے اور اس پہ فکس پیسے لئے جائیں بلکہ سود تو تب بھی ہو گا جب کسی کے ساتھ تجارت میں انوسٹمنٹ کر لی جائے مگر منافع فیصد کی بجائے رقم میں فکس کر دیا جائے ، جیسا کہ مذکورہ سوال میں کہا گیا ہے مذکورہ سوال میں یہی لگ رہا ہے کہ پیسے لگانے والے کو صرف نفع ہی ملے گا نقصان نہیں ملے گا اور دوسرا نفع بھی فکس رقم ہے فیصد فکس نہیں ہے
پس وہ اگر رقم لگا کر کہ دیتا ہے کہ منافع یا نقصان میں میں دس فیصد یا پندرہ فیصد وغیرہ حصہ دار ہوں گا تو پھر ٹھیک ہے فی سوٹ رقم فکس کرنا درست نہیں کیونکہ اگر دکاندار کو فی سوٹ نقصان ہو گیا تو وہ کیسے اسکو فی سوٹ سو روپے دے گا یہی تو سود ہوتا ہے کہ جس میں آپ اپنا رزک (نقصان کا چانس) ختم کر دیتے ہیں. واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کپڑے خریدے جا سکتے ہیں، سردیوں میں گرمیوں کے کپڑے واقعتاً سستے ملتے ہیں، پھر مشترکہ کاروبار بھی کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ مضاربہ ہو یا مشارکہ ہو، البتہ اس نے جو نفعے پر بات کی ہے، وہ پرسنٹیج بنائیں کہ مجھے سوٹ پہ دو پرسنٹ دینا ہے یا پانچ پرسنٹ دینا ہے، پرسنٹیج میں پیسے اوپر نیچے ہونگے، کبھی سو، کبھی دو تو کبھی تین سو ہونگے، پرسنٹیج بھی نفعے پر مقرر کریں، اصل قیمت پر نہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سب سے پہلے یہ طے کیا جائے کہ وہ دوست اس کو قرض دے رہا ہے یا مضاربت پر رقم دے رہا ہے، اگر وہ قرض دے رہا ہے تو واپسی کے حوالے سے اس کی یہ ساری باتیں غلط ہیں، قرض دے رہا ہے تو جتنا قرض دیا ہے، اتنا ہی قرض اس کو واپس دینا ہوگا، اس سے زیادہ ایک روپیہ بھی نہیں ہوگا، باقی اگر مضاربت کے حساب سے دے رہا ہے تو رقم فکس نہ کریں، جیسا کہ اوپر شیخ صاحب نے بتایا ہے، پرسنٹیج پر معاملہ طے کرلیں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ