سوال (758)

تنخواہ سے جو ہر ماہ کٹوتی کی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کٹوتی شدہ رقم اور اس کے علاوہ بھی مزید پیسے ملا کر ریٹائر ہونے والے ملازمین کو دیے جاتے ہیں ، جو اچھی خاصی رقم ہوتی ہے ؟ اس کا شرعی حکم بتا دیں ۔

جواب

اضافی رقم سود ہے وہ لینا جائز نہیں ہے اور اس کو ختم کروایا جا سکتا ہے . ختم کروانے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

شیخ محترم نے فرمایا ہے کہ ختم کرنے کا آپشن موجود ہے ، لیکن اب تک جو معاملہ سامنے آیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ رقم آپ کے نام سے کہیں نہ کہیں استعمال ہوجاتی ہے ، غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ اسی طرح کو سود پہ چلا کے رکھتے ہیں ، ختم کروانے کا آپشن یہ اچھا ہے ، وہ تمام نکلوائی جائے ، اس میں لکھا ہوتا ہے کہ سود کا پیسہ اتنا ہے ، وہ لینے کے بعد الگ کردیا جائے ، اب اس پیسے سے صرف جان چھڑانی ہے ، کوئی ارادہ و نیت ثواب اور اجر کی نہیں ہے ، کیونکہ یہ بوجھ ہمارے گلے پڑ گیا ہے ، البتہ کچھ لوگ جذبات میں آکر کہتے ہیں کہ ان پیسوں کو جلادو یا پھینک دو یہ بھی ناجائز ہے ، کیونکہ مال کو ضائع کرنے کی اجازت نہ اسلام میں ہے اور نہ قانون میں ہے ۔
اس کے حل کے لیے کچھ صورتیں مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) : اس طرح کی رقم کسی ذمی غیر مسلم کو دے دیا جائے جو فتنہ پرور اور جنگجو نہ ہو ۔
(2) : ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی ایسے بندے کو یہ رقم دی جائے جو بندہ ناجائز چیز میں پھس گیا ہو تو اس کی اس ناجائز پیسے سے خلاصی کروائی جائے ۔ جیسے کوئی سودی لین دین میں پھس گیا ہو اب وہ توبہ کرنا چاہتا ہے۔
(3) : ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ رقم رفاہ عامہ میں لگادی جائے یعنی گلی اور سڑکوں پر اینٹیں وغیرہ لگادئی جائیں ۔
ہندوستان کے علماء یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں ہمیشہ غیر مسلم مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ، وہاں اگر کوئی رقم نہ ہو تو ایسی رقم سے غیر مسلم کے خلاف اسلحہ وغیرہ لیا جائے ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ