سات اکتوبر اور ارض مقدس کے جانباز

عدوکم ایھا الاخوة لا یفھم الا لغۃ واحدہ ھی لغۃ الحراب و لغۃ السلاح ولغة القتال

اے میرے بھائیوں تمہارا دشمن صرف ایک ہی زبان سمجھتا ہے اور وہ ہے جنگ کی زبان اسلحے کی زبان اور قتال کی زبان
یہ الفاظ آج سے کوی پچیس سال پہلے ارض مقدس کے عظیم قائد شیخ عبد العزیز رنتیسی رحمہ اللہ نے ارض مقدس کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوے فرماے تھے۔
بلاشبہ شیخ کی یہ بات ماضی کے وہ تجربات تھے جن کا ان سمیت ارض مقدس کے ہر باسی کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ جیلیں٬ بمباری ٬ مسلمان بچوں کا قتل ٬مسلمان عورتوں کی عزتوں کی پامالی ٬جانبازوں کی شہادت اور اقصی پہ غاصبوں کا قبضہ یہ ایک بہت تلخ تاریخ تھی جو ان ایمان افروز الفاظ کا پس منظر تھی۔
بعد میں آنے والے حالات نے یہ ثابت کیا کہ ارض مقدس کے باسیوں نے شیخ رنتیسی کے ان الفاظ کو حرز جاں بنا لیا اور وہ غاصب دشمن کے مقابلے میں بنیان مرصوص کا منظر پیش کرنے لگے۔ارض مقدس میں جاری اس تحریک مزاحمت کو ایک بہت بڑا دھچکا اس وقت لگا جب اس مزاحمت کی تحریک کے بانی شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ غاصبوں کے میزائل حملے کا نشانہ بنے ۔یہ مارچ 2004 کی بات تھی ۔اس حملے کے بعد اس تحریک مزاحمت کا سربراہ شیخ رنتیسی کو بنایا گیا ۔شیخ نے قیادت سنبھالتے ہی غاصبوں کو بڑے سخت الفاظ میں یہ پیغام دیا کہ ہمارا راستہ بارود کا راستہ ہے اور ہم ارض مقدس کی آزادی کے لیے بارود کے راستے کے علاؤہ کسی راستے کو درست نہیں سمجھتے مگر بمشکل ایک ماہ کے بعد شیخ رنتیسی بھی غاصبوں کے میزائل حملے کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کر گے ۔پہ درپہ دو اہم شہادتوں کے باوجود بھی یہ تحریک مزاحمت رکی نہیں بلکہ غاصبوں کو ارض مقدس سے نکالنے کے اپنے عظیم مقصد کی طرف رواں دواں رہی ۔درمیان میں2007 2014 2021 جیسوں سالوں میں اس تحریک کو سخت حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا حتاکہ 7 اکتوبر 2023 کا دن آگیا جس دن ارض مقدس کے جانبازوں نے اللہ کی مدد ونصرت سے غاصب دشمن کو اس کے گھر میں ایسا ذلیل کیا کہ غاصبوں کی نسلیں بھی کبھی اس ذلت ورسوائی کو نہیں بھولیں گی ان شاءاللہ
حقیقی بات یہ ہے کہ ان حملوں نے اہل ایمان کو بہت حوصلہ دیا ۔یہ دن اہل ایمان کے لیے بالعموم اور ارض مقدس کے باسیوں کے لیے بالخصوص بہت راحت والا دن تھا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دن کے بعد ارض مقدس کے باسیوں کے لیے بالعموم اور ارض مقدس کے جانبازوں کے لیے بالخصوص آزمائشوں اور ابتلاؤں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی سال ہونے تک بھی جاری وساری ہے مگر قربان جائیں ارض مقدس کے باسیوں اور جانبازوں پہ کہ انہوں نے ایک سال کے عرصے میں آنی والی تمام آزمائشوں کو ناصرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ غاصبوں کے مقابلے میں صبر واستقامت کی ایسی عظیم داستانیں رقم کیں کہ جس نے اس گے گزرے دور میں بھی اسلاف کے صبر واستقامت کی یاد تازہ کردی۔
اگر ہم بات ارض مقدس کی عوام کی کریں تو بلاشبہ اس پورے سال میں ارض مقدس کے باسیوں کا صبر واستقامت بہت ہی قابل رشک ثابت ہوا۔انہوں نے اپنے بچے قربان کر کے بھی رب کی بارگاہ میں شکر ادا کیا جو کہ درجہ صبر سے اوپر درجہ رضا کا بھی اعلی مقام ہے بلکہ اس کے علاؤہ غاصبوں کے مقابلے میں لڑنے والے جانبازوں کی ہر محاذ پہ مکمل اخلاقی مدد جاری رکھی ۔کھل کر جانبازوں کے قتال کی حمایت کی اور اپنے اوپر آنے والی اس آزمائش کا جانبازوں کو کوی الزام نہیں دیا جبکہ اس موقع پہ ارض مقدس کے مسلمانوں کو بے یار ومددگار چھوڑنے والا مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی اور اپنے حکمرانوں کی ارض مقدس کے باسیوں کے ساتھ کی گی اس بدترین خیانت پہ پردہ ڈالنے کے لیے مسلسل جانبازوں کو ہی اس سارے ظلم وستم کا قصور وار ٹہراتا رہا ۔ اللہ ارض مقدس کے باسیوں کو اس عظیم کردار پہ اجر عظیم عطاء فرماے اور اپنی رحمت میں ڈھانپ لے آمین یارب العالمین
اور اگر بات ارض مقدس کے جانبازوں کی کی جاے تو حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں ارض مقدس کے جانبازوں کا جس دشمن سے مقابلہ تھا وہ دشمن اپنی دشمنی میں تو قرآن کے مطابق مسلمانوں کا سب سے بدترین دشمن تھا ہی مگر ۔اس کے علاؤہ اس دشمن کے پاس مادی اسلحہ اور مادی وسائل بھی بہت وافر مقدار میں تھے اور پھر اس کے بعد وقت کی سپر پاورز کی مکمل سپورٹ بھی اس غاصب دشمن کو حاصل تھی مگر ارض مقدس کے جانباز اللہ کے حکم سے وسائل کی قلت اور اپنوں کی مکمل بے وفائی کے باوجود غاصب دشمن کے مقابلے میں مکمل جوانمردی سے ڈٹے رہے اور ابھی تک ڈٹے ہوے ہیں وللہ الحمد ۔حقیقت یہ ہے کہ ارض مقدس کے جانبازوں پہ جتنا بھی رشک کیا جاے اتنا ہی کم ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے دور میں اہل شام کی قت ا ل فی سبیل اللہ سے محبت اور اس میدان میں ان کے عملی کردار کو دیکھتے ہوے کہا تھا کہ روے زمین پہ بہترین لوگ مسجد اقصی کے اردگرد بستے ہیں اور مستقبل میں بھی اہم مواقع پہ ایسا ہوگا ۔شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے اس قول کو پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ آج پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے
ہم بارگاہ الہی میں بڑی عاجزی سے التجاء کرتے ہیں کہ یااللہ ارض مقدس کے باسیوں کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ ان کی عورتوں کی عزتوں کا محافظ ہوجا ان کے زخمیوں کو شفاء یاب کردے ان کے قیدیوں کو رہائی دے دے ان کے جانبازوں کی مدد فرما ان کے قدموں کو مضبوط کردے غاصب دشمن جو ان کے مقابلے میں ہے یااللہ تو اس دشمن کو تباہ و برباد کردے اور نشان عبرت بنا دے اور امت مسلمہ کو وہن کے مرض سے نجات عطاء فرما کر دشمن کے مقابلے کے لیے اپنی ایمانی وعسکری تیاری کو مکمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین یارب العالمین

تحریر : حنین قدوسی

یہ بھی پڑھیں: متکلمِ اسلام ڈاکٹر ذاکرنائیک — ایک نابغہ روزگار شخصیت