کل ایک عزیز دوست کی پوسٹ پڑھ رہا تھا کہ سعودی عرب کے علما دنیا کے بہترین علما ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی علما دنیا کے بہترین علما میں سے ہیں، البتہ مدینہ یونیورسٹی بنی تو پہلے استاذ حدیث پاکستان کے عالم محدث گوندلوی چنے گئے ظاہر ہے، دنیا بھر سے یہ بہترین انتخاب تھا، جدید سعودیہ میں پہلے امیر حج گوجرانوالہ کے بے مثل فکری قلمکار اسمعیل سلفی بنائے گئے۔ صحاح ستہ کے مجموعہ احادیث کے مرتبین میں امام بخاری و ترمذی وغیرہ جیسے نام عربی نہیں عجمی ہیں۔

مدینہ یونیورسٹی میں قادیانیت پڑھانے کا شرف طالب علم ہوتے بھی احسان الہی ظہیر کو ملا اور یہ وہی پاکستانی طالب علم تھے جن کے بارے وائس چانسلر ابن باز نے کہا تھا اگر احسان الہی فیل ہوگیا تو میں یونیورسٹی بند کر دوں گا۔ جس معروف سکالر کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا، وہ بھی مولانا مودودی پاکستانی تھے۔ علامہ البانی نے جس شخص سے اصلاح لینے کا اعتراف اپنی کتاب میں کیا، وہ عظیم سکالر ارشاد الحق اثری پاکستانی ہیں۔ عرب ائمہ حرم جس شخصیت کو سماحة الوالد کہہ کر پکارتے ہیں، وہ علامہ ساجد میر پاکستانی ہیں۔

پھر رہی بات کہ علما کی وہاں ہر بات مان لی جاتی یا علما تنہائی میں ہر بات منوا لیتے ہیں، عملا یہ خوش گمانی دکھائی نہیں دیتی۔ مثلا شیخ شریم امام کعبہ تھے، مگر ان کی آواز ایک عرصے سے حرم میں گونج نہیں رہی۔ یعنی علما نہیں منوا سکے۔ سعودیہ سے منکر پر نکیر کا شعبہ علما کا پسندیدہ شعبہ تھا، وہ پہلے کی طرح متحرک نہیں، یعنی علما کی بات مانی نہیں گئی۔ نیوم شہر کی ساری جدتیں از قسم کنسرٹ وغیرہ ،عقل سے بعید ہے کہ وہ علما کے زیرنگرانی یا اجازت سے ہورہی ہوں، میں یہ نہیں کہتا کہ ہم سعودیہ سے زیادہ پاکباز ہیں، اور یہ کہ ہمارے حصے کی نیکیاں بھی انھیں ہی سرانجام دینی چاہئیں اور بطور انسان غلطی کرنے کا حق صرف ہمیں ہی حاصل ہے۔ نہیں ایسا نہیں، مگر جیسے ہم خوش گماں ہیں، وہاں ویسا بھی نہیں۔ ہر جگہ انسان ہیں اور ہر جگہ اچھائیاں اور برائیاں ہیں۔

یوسف سراج