سوال (4485)

سعودی گورنمنٹ نے نیچے طواف کرنے پر پابندی لگائی ہے، اس لیے بعض احباب احرام باندھ کر نیچے طواف کرتے ہیں، بعض لوگ باتیں کرتے ہیں یہ جائز نہیں ہے؟

جواب

آپ کو تمام ارکان کے ساتھ ایک عمرہ کرنا چاہیے، باقی قانون شکنی کے ساتھ دھوکہ دہی کے ساتھ طواف نہیں کرنا چاہیے، ایسی کوئی بھی حرکت نہیں کرنی چاہیے، اس کی اجازت اسلام اور اہل اسلام نہیں دیتے ہیں، یہ جائز نہیں ہے کہ بندہ دھوکہ دے کر اپنے آپ کو معتمر اور حاجی ظاہر کردے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یاد رکھیں کہ ہمارے دین میں ہر عبادت کا ایک اخلاقی پس منظر ہوتا ہے، کبھی کبھار جتنا فقہی پہلو غالب نہیں ہوتا ہے، جتنا اخلاقی پہلو غالب ہوتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال روزہ اور حج ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: “خذوا عني مناسككم”
مطلب یہ ہے کہ ظاہری اعتبار ہم نے کو عبادات سیکھائے ہیں، اس طرح کریں، لیکن قرآن نے اخلاقی لحاظ سے حج کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں، ان میں صبر و تحمل، گالی گلوچ نہ کرنا اور برداشت کرنا شامل ہے، یہ تمام اخلاقی تعلیمات ہیں، روزہ صرف بھوک و پیاس نہیں ہے، بلکہ پورے روزے کا پس منظر اخلاقی پس منظر ہے، معلوم ہوا ہے کہ ہماری عبادات میں ہمیں اخلاقیات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
ایک اور بات یہ ہے کہ ہماری عبادات میں کچھ عبادات میں حکمران وقت کی اطاعت کا بھی پہلو ہے، اس کو بھی مد نظر رکھا جائے، کچھ کام ایسے ہیں، اگر وہ حکمران وقت کی اطاعت میں کی جائیں تو وہ باعث اجر ثابت ہوتے ہیں، میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ ٹریفک سنگنل کو فالو کیا جائے تو ان شاء اللہ اس پر بھی اجر ملے گا۔
اگر سعودی حکومت نے حجاج کی آسانی کے لیے پابندی لگائی ہے تو اس پر عمل کرنا اجر والا معاملہ ہے، اس پر نیت کے ساتھ عمل کرے تو اس پر اجر ملے گا، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور ہم دھوکہ دے رہے ہیں، دھوکہ دے کر اور جھوٹ بول کر کیسے ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ عافیت والا معاملہ کرے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

سائل: کچھ علمائے کرام کا موقف ہے کہ مکہ میں ہی اپنی اپنی جگہ سے عمرے کا احرام باندھ کر طواف کیا جا سکتا ہے، کیا یہ موقف درست ہے؟ ان کی دلیل یہ کہ ایک شہر کا آدمی دوسرے شہر میں چلا جائے تو اس کا اس کا میقات وہی ہوگا، جو اس شہر کے لوگوں کا ہو گا، اور معلوم ہے کہ اہل مکہ کا میقات مکہ ہی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ
نبی کریم ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ میقات ٹھہرایا اور شام والوں کے لیے حجفہ، یمن والوں کے لیے یلملم اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل۔ یہ ان ملکوں کے لوگوں کے لیے ہیں اور دوسرے ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو ان ملکوں سے گزریں۔ اور حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں۔ تو وہ اپنے شہروں سے احرام باندھیں، تاآنکہ مکہ کے لوگ مکہ ہی سے احرام باندھیں۔ [صحیح البخاری : 1529]
جواب: جی ہاں، بعض علماء کا موقف ہے کہ ہوٹل سے احرام باندھیں، عمرے کے احرام کو بھی وہ اس طرح عموم پر رکھتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نماز میں آپ جا کر عمرہ کریں، اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں ہے، اپنی جگہ سے اگر احرام باندھا جاتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو تنعیم نہیں بھیجا جاتا، یہ تفصیل طلب چیزیں ہیں، اہل علم کا یہ رجحان ہے کہ قریب ترین میقات جائیں، یا قریب الحل جائیں، مسجد تنعیم کو بھی قریب الحل شمار کیا گیا ہے، تو یہ فتویٰ بھی مل جاتا ہے، باقی ہوٹل والا محل نظر ہے، باقی حج کے موقع پر آٹھ تاریخ کو ہوٹل سے احرام باندھ سکتے ہیں، ہماری معلومات کے مطابق حج و عمرہ میں فرق کیا گیا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

تمام تر شبہات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ معتمرین میقات پر جائیں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل: کیا صرف طواف کیلئے ہوٹل سے احرام باندھ کر حرم میں آیا جا سکتا ہے؟ مکمل عمرہ نہیں کرنا صرف طواف کی غرض سے۔
جواب: انتظامی معاملات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، یہ پابندی عمرہ والوں کی آسانی کے لیے لگائی گئی ہے، پھر عبادت کرنے کے لیے بندہ دھوکہ کیوں کرے؟ تھوڑی عبادت معیاری عبادت اللہ کو پسند ہے۔ لہذا معیار پر توجہ دیں اور لمبے چکر والا طواف کریں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ