سوال (2831)

کیا کوئی اپنے باپ کی بیوی کو ماں کہ سکتا ہے یعنی جسے آج کل سوتیلی کہہ دیتے ہیں؟ دلائل کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب

سوتیلی ماں حقیقی ماں تو نہیں ہوتی ہے، لیکن اس کو مجازا “ماں” کہا جا سکتا ہے، اس پر کچھ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
1 : اس لیے یہ وہ اپنے سوتیلے بچوں کے لیے محرم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا.

2 : سوتیلی ماں کی عزت کرنا، اس کے ساتھ تعلق قائم رکھنا، اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حال کا جائزہ لینا اور اس کے بارے میں پوچھنا درحقیقت باپ سے تعلق اور اس کے ساتھ حسن سلوک ہے، اس کا حق صرف باپ کی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی موت کے بعد تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ أبر البر صلة الولد أهل ود أبيه صحيح [مسلم : ٢٥٥٢]

والدین کے ساتھ بہترین سلوک میں سے یہ (بھی) ہے کہ جب اس کا والد رخصت ہو جائے تو اس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والے آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
3 : اس لیے کہ والد کے قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ میں أبو أسيد مالك بن ربيعة الساعدي فرماتے ہیں:

قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل من بني سلمة فقال: يا رسول الله: هل بقي علي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: “نعم، الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما.

ابو اسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ کے مر جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہے، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت و اقرار کو نافذ کرنا، جو رشتے انہیں کی وجہ سے جڑتے ہیں، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا (ان حسن سلوک کی یہ مختلف صورتیں ہیں)۔
الله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ