ابابیل آئے اور چل دیے ، ابرہہ تاریخ کے اوراق کا حصہ ہو چکا ،زم زم بہتا رہا اور مکہ آباد رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالمطلب مکہ کے سردار تھے کہ دسواں بیٹا پیدا ہوا ۔ عبداللہ نام رکھا اور یہ عبداللہ دس کے دس میں ممتاز تھا عبدالمطلب کی جان ہوا، آنکھوں کا سرور ہوا، اہل مکہ کے دل کا بھی چین ٹھہرا۔ خوبصورتی ایسی کہ کتنی آنکھیں حسرت سے تکا کرتی کہ یہ چاند ان کے آنگن میں آ کے اترے۔ ان کی آغوش اس حسن بے کنار سے ہم کنار ہو۔
عبدالمطلب نے ایک نذر مانی تھی کہ اگر مجھے دس بچے ملے تو ایک کو اللہ کی راہ میں قربان کروں گا۔ عبداللہ آئے، کچھ عمر بڑھی تو عبدالمطلب کو نذر پوری کرنے کا خیال آیا۔ بیٹے کو ہاتھ سے پکڑا اور صحن بیت اللہ کی جانب چل دیے ۔ ایک ہاتھ میں چھری ایک ہاتھ میں عبداللہ کا ہاتھ۔ مکہ کے پہاڑ ایک بار پھر ذبح عظیم کے منظر کو دیکھنے کے منتظر تھے۔ کبھی انہوں نے اسماعیل کو دیکھا تھا اور آج اولاد اسماعیل کو دیکھ رہے تھے۔
عبدالمطلب صحن بیت اللہ میں پہنچے تومکے والوں کو معلوم پڑا ۔ دوڑے چلے آئے، عبد مناف کہ جو بعد میں ابو طالب کے نام سے جانے گئے ، انہوں نے بھی باپ کا ہاتھ پکڑا ۔
عبدالمطلب کچھ مضطرب ہو کے بولے کہ:
“پھر اپنی نذر کا کیا کروں ؟؟”
مشورہ آیا کہ فلاں کاہنہ کے پاس چلیے اس سے مشورہ طلب کیجئے، ممکن ہے کوئی راہ نکل آئے، عبداللہ کی جان بچ جائے اور نذر بھی پوری ہو جائے۔
اس نے کہا :
قرعہ نکالو ایک تیر پہ عبداللہ کا نام لکھو ایک تیر پر اونٹ ۔۔۔۔ اور قرعہ نکالتے جاؤ ، جب عبداللہ کا نام آ جائے تو رک جاؤ ۔ اور اتنے اونٹ اللہ کی راہ میں ذبح کر دو۔
عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ۔ پہلی بار قرعہ نکالا تو عبداللہ کا نام نہ آیا۔ دس اونٹ ایک طرف کر دیے گئے پھر دوبارہ قرعہ نکالا تو پھر اونٹوں کا تیر ہی نکلا ۔ اونٹ الگ کر دیئے گئے۔ حتی کہ سو اونٹ کے بعد عبداللہ کا نام آیا۔
سو اونٹ ذبح کر دیے گئے سارا مکہ آج مہمان تھا ۔

عبداللہ جوان ہوئے تو ابا نے چاہا کہ قریش کی معزز ترین خاندان سے دلہن لائی جائے ، سو یہاں بھی عبداللہ کی تقدیر کا لکھا بلند ہوا اور آمنہ بی بی ان کے عقد میں آئیں ۔ وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب اور رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔انکے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔ اہل مکہ اس جوڑے کو دیکھ دیکھ رشک کرتے لیکن شاید نظر لگ گئی، ابھی عبداللہ کی پچیس برس عمر تھی کہ شام کے سفر کو نکلے۔
جب سفر سے واپس آ رہے تھے کہ بیمار ہوئے، سورج ڈھل رہا تھا لیکن یہ عبداللہ کی عمر کا سورج تھا ۔عبدالمطلب کے ننھیال مدینہ کے جوار میں رہتے تھے سو اپنے والد کے ننھیال میں رک گئے۔ قافلے والوں نے مکہ پہنچ کے خبر دی کہ عبداللہ جیسے کوئی بجھتا ہوا چراغ ہوئے۔
عبدالمطلب نے بڑے حارث کو دوڑایا کہ بھائی کی خبر لے، لیکن جب تک حارث عبداللہ تک پہنچتے عبداللہ رخصت ہو چکے تھے۔ جوان دلہن کہ دو ماہ کی حاملہ تھی صدمے میں مرثیہ خواں ہوئی۔ بی بی آمنہ کے اشعار آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں، دکھ کرب جدائی کا موسم جیسے ان اشعار میں اتر گیا ۔۔

عفا جانب البطحاٴ من ابن ھاشم وجاوربحداخارجافی الغماغم
دعتہ المنایا دعوۃ فاجابہا وما ترکت فی الناس مثل ابن ھاشم
عشیہ راحوا یحملون سریرہ’ تعاورہ اصحابہ فی التزاحم
فان تک غالتہ المنایاورہبھا فقد کان معطاٴ کثیر التراحم

بطحا کی آغوش، ہاشم کے لخت جگر سے خالی ہو گئی، اور وہ ایک لحد میں آسودہ خاک ہو گیا۔
اسے موت نے پکارا تو اس نے لبیک کہہ دیا۔ اب موت نے لوگوں میں ابن ہاشم جیسا کوئی انسان نہیں چھوڑا۔

اس شام کے دامن میں کیسی حسرتیں لپٹی پڑی تھیں کہ جس شام لوگ انہیں تخت پر اٹھائے لے جا رہے تھے۔
گو موت اور موت کے حوادث نے انکا وجود ختم کر دیا ہے(تو انکے کردار کے نقوش نہیں مٹائے جا سکتے)۔ وہ بڑے دانا اور رحم دل تھے۔

عبداللہ کی یادیں ابھی مکے کی دیواروں سے لپٹ لپٹ کر روتی تھی۔ شام ڈھلے جب کھجوروں کے سائے لمبے ہوتے تو عبدالمطلب عبداللہ کی جدائی میں نمناک آنکھوں سے عبداللہ کے بیٹے کا انتظار کرتے کہ اب ان کو اس بڑھاپے میں جیسے امید یہی کرن دکھائی دیتی ۔
اب آؤ
کہ برسوں سے
تم کو بلاتے بلاتے
میرے دل پہ گہری تھکن
چھا رہی ہے

آخر اک روز امید کا سورج چمکا اور خبر ملی کہ بی بی آمنہ کے ہاں سراج اترا ہے ، بدر منیر اترا ہے ۔
عبدالمطلب کی بوڑھی کمر جیسے پھر سیدھی ہو گئی ان کے آنگن میں جیسے پھر عبداللہ اتر آیا۔ اب دادا اور پوتا جیسے ایک دوسرے کی جان تھے۔
اہل مکہ کا رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو دو برس کے لیے دیہات میں بھجوا دیا کرتے۔ وہاں ان کی پرورش ہوتی اور بچے تھوڑا سا بڑے ہوتے تو ماں باپ کے پاس واپس آ جاتے اور جو بچوں کو لے جانے والی دائیہ ہوتی ، اس کی حسب توفیق خدمت بھی کی جاتی۔۔

بنی سعد ایسا ہی ایک معزز قبیلہ تھا کہ جو روایت عرب کا پاسبان تھا۔ جو عرب کے خالص ماحول کو سنبھالے ہوئے تھا اور جہاں مکہ والے اپنے بچوں کی پرورش کرنا پسند کرتے ۔ بنی سعد سے مکہ کی طرف قافلہ نکلا۔ ان میں ایک کمزور سی گدہی پر سوار خاتون حلیمہ سعدیہ بھی تھیں اور ساتھ ایک ایسی ہی نحیف و نزار اونٹنی پر ان کے میاں سوار۔ ان کمزور جانوروں کے سبب یہ قافلے سے بار بار پیچھے رہ جاتے اور راستہ بھر قافلے والے رک کر ان کا انتظار کرتے۔
لیکن جب مکے کے اثار دکھائی دیے تو کون کسی کا انتظار کرتا ہے سو سب جلدی سے مکہ پہنچے اور حلیمہ پیچھے آہستہ آہستہ سوئے منزل ۔۔۔بنی سعد مکہ پہنچے تو سب سرداروں کے گھروں میں گئے ۔ بی بی آمنہ کی طرف بھی ایک سے زیادہ لوگ گئے لیکن جب دیکھتے کہ بچے کا باپ نہیں ہے تو کچھ نا امیدی سے نکل آتے کہ سر پر باپ نہیں یہاں سے کیا ملے گا۔
حلیمہ کی ساری ہم جھولیاں اور شریک سفر اپنے لیے بہترین انتخاب کر چکی تھیں، تلاش بسیار ۔۔۔۔۔ کہ مکہ میں بس ایک ہی بچہ باقی تھا ۔
مایوس حلیمہ نے ایک بار تو سوچا کہ واپس پلٹ جائے ، کیا کسی یتیم کو گود میں لینا۔ نری محنت اور مشقت اور حاصل وصول ہی کچھ نہیں۔
لیکن پاس سے حلیمہ کے خاوند نے صلاح دی کہ خالی ہاتھ کیوں کر جاتی ہو چلو کم ہی سہی، نہ ملے مال، ذرا بچہ تو دیکھو کیسا حسین ہے کہ جیسے گھر کے آنگن میں مہتاب اتر آیا، جیسے سارے کا سارا سورج زمین پر اتر آیا، اور زمین کی گود اس کے حسن کی گرمی سے بھر گئی۔ حلیمہ کیا معلوم تمہاری گود بھی اس سراج منیر سے روشن ہو جائے ۔
امید بھری اس تحریک نے حلیمہ کے دل کے کسی کونے میں آس کی جانے کیسی جوت جگائی کہ آگے بڑھ کر بچے کا ہاتھ پکڑا، گود میں اٹھایا، آنکھوں سے لگایا اور اپنے ہونٹ بچے کے رخسار پہ پیوست کر دیے۔
بچہ لیا، خیمے میں پہنچی تو دیکھا جو اونٹنی دودھ نہیں دیتی تھی اس کے بہت دودھ اترا ہوا ہے ۔ حلیمہ خود کہتی ہیں کہ خوراک کی قلت کے سبب خود میرا دودھ میرے بچوں کو کافی نہ رہتا تھا ، اب خیمے میں آئی تو جیسے من و سلوی اتر آئے۔ پہلے میں نے عبداللہ کے لخت جگر کو دودھ پلایا اور پھر سیر ہو کر میرے بچوں نے پیا۔
اپنے خاوند کو کہتی ہیں کہ کچھ بدلاؤ ہے اور شاید اسی بچے کے سبب ہے کہ جیسے ہمارے خیمے میں برکتیں اتر رہی ہیں واپسی کا سفر تھا۔
تاریخ میں بس واپسی کے سفر کا اتنا ہی سراغ ملتا ہے کہ اونٹنی کہ جس نے اس کو آمد کے سفر میں اپنی سستی کے سبب شرمندہ کیے رکھا اب واپسی کے سفر میں سب سے آگے تھی ۔
شریکِ سفر ، ہم جولیاں کچھ حیرت سے پوچھتی ہیں :
“حلیمہ کیا ماجرہ ہو گیا اس مردہ تن میں کہاں سے ایسی جان آگئی، کہاں ہم تمہارا انتظار کرتی تھی، اور اب تم ہم سے پکڑی ہی نہیں جا رہی ہو ۔ اب تم ہمارا رک کے انتظار کرتی ہو کہ ہم تمہیں آ کر پا لیں ”
حلیمہ کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ
“سوار بدل گیا ہے”
۔۔۔۔صلی اللہ علیہ وسلم

ابوبکر قدوسی