سوال (337)

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کسی عورت کو پیشنگوئی کی تھی کہ تمہیں لڑکی پیدا ہوگی اس اثر کی سند درکار ہے ؟

جواب

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ کو 20 وسق کھجوریں دی تھیں ، جن کو وہ اپنے قبضے میں نہ لے سکی تھیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے ان کو اپنے ترکے میں شامل کرلیا تھا ۔اور فرمایا اب اس کے وارث تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ کہا میری تو ایک بہن ہے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا دوسری وہ ہے جو تمہاری ماں کے پیٹ میں ہے۔
شارحین نے لکھا ہے کہ شاید سیدنا ابوبکر کو بذریعہ خواب اس کی اطلاع ہوچکی تھی۔
[مؤطا مالک ، کتاب الاقضیہ، باب :33 ح :40]

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

“وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ:” وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ، مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ، وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْكِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ، وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ وَأُخْتَاكِ، فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ”. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ، إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ فَمَنِ الْأُخْرَى؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:” ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ أُرَاهَا جَارِيَةً”
تخریج الحدیث :
[موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى سننه الكبيربرقم : 11948، والبيهقي فى معرفة السنن والآثار برقم: 3761، وعبد الرزاق فى مصنفه برقم: 16507، 16508، 16512،
وابن أبى شيبة فى مصنفه برقم: 20506، والطحاوي فى شرح معاني الآثار برقم: 5844، 5845]

اس روایت میں “أراها” کا لفظ ہے، جس کا معنی کشف نہیں ہے ، بلکہ یہ ہے کہ “میں اسے سمجھتا ہوں” یعنی صرف ایک اندازہ ہی تھا جو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لگایا تھا ۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

“اراھا” کے دو مفعول ہیں، ھا ضمیر اور جاریۃ ۔
تو یہ افعال قلوب میں سے ہے ، رؤیۃ عین کے مراد نہیں ہوتی اس میں ، دیکھنے کا معنی تب ہوتا جب اسکا ایک مفعول آتا ہے۔ یہ فعل مجھول ہے اور ظن کے معنی میں ہے۔ اگر کشف کی ضد ہے تو پھر اس کے دو معانی ہوسکتے ہیں اگر اسے معروف پڑھیں: میں اسے لڑکی یقین کررہا ہوں۔ میں اسے لڑکی گمان کررہا ہوں۔
اب وہ صاحب ان دو محتمل معانی میں کس دلیل کی بناء پر یقین والے معنی کو راجح کہہ رہے ہیں؟
احتمالی دلیل سے تو عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ہے ،
ہم تو اسے مجہول پڑھ رہے ہیں جو گمان کے معنی میں ہے اور اس معنی کے راجح ہونے کے دلائل علم الغیب والے ہیں بالخصوص اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث ہے ۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ