سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی سیرت و سوانح

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا صدیق کی بیٹی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ اور امت کی ماں ہیں، آپ رضی اللہ عنھا کا تعلق صدیقی خاندان سے تھا، جو ایمان، صداقت اور تقویٰ میں معروف تھا، آپ رضی اللہ عنھا کے لیے جبرئیل آسمانوں سے سلام لے کر آتے تھے، آپ رضی اللہ عنھا کی عبادت گزاری اور سخاوت بھی مثالی تھی، آپ رضی اللہ عنھا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک علم کا وافر حصہ عطا کیا تھا، آپ رضی اللہ عنھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شب و روز، عبادات اور ازدواجی زندگی کی محافظہ ہیں، آپ رضی اللہ عنھا کے علم و فہم کا کبار صحابہ معترف تھے، مسائل میں صحابہ کے درمیان اختلاف کی صورت میں حل کے لیے حجرہ عائشہ کا انتخاب کیا جاتا تھا، یہ جگہ علم، فہم اور برکت کا مرکز سمجھی جاتی تھی، جہاں عقل و فہم کی روشنی میں امت کی رہنمائی کے فیصلے صادر ہوتے تھے، آپ رضی اللہ عنھا کے کئی فضائل و مناقب ہیں، جن میں چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔

نام و نسب:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اللہ تعالیٰ کے خلیل سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی صدیقہ بنت صدیق امام اکبر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب تھے۔

والد: آپ کے والد کا نام عبد اللہ کنیت ابوبکر اور لقب صدیق ہے، سیدنا ابو بکر کے والد کا نام عثمان ہے، ان کی کنیت ابو قحافہ ہے۔

والدہ: آپ کی والدہ کی کنیت ام رومان تھی، نام زینب تھا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی کنیت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو اس وقت ام عبداللہ کی کنیت عطا کی جب انہوں نے اپنے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کنیت کی درخواست کی تھی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے القابات:
آپ رضی اللہ عنھا کے القابات صدیقہ ، طیبہ ، حمیراء اور موفقہ ہیں۔

مرویات عائشہ:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا شمار ان صحابہ کرام میں ہے، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کثرت روایات بیان کی ہیں، آپ کی مرویات کی تعداد 2210 ہے۔

فضائل و مناقب:
(1) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا علمی سفر”:
ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ:

“أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ” [صحيح البخاري: 103]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنھا جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تاکہ سمجھ لیں»

(2) “آخری لمحات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس رہنے کا انتخاب”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ فِي أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَذِنَّ لَهُ” [صحيح البخاري: 198]

«جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیویوں سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کی تیمارداری میرے ہی گھر کی جائے۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی»

(3) “محبت کی جھلک: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و عائشہ رضی اللہ عنھا کا مشترکہ غسل”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ قَدَحٍ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ الْفَرَقُ” [صحيح البخاري: 250]

«میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا»

(4) “سیدہ کا اپنے محبوب کو خوشبو لگانا”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“أَنَا طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ طَافَ فِي نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا” [صحيح البخاري: 270]

«میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی ، پھر آپ اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور اس کے بعد احرام باندھا»

(5) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“خَرَجْنَا لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكِ، ‏‏‏‏‏‏أَنُفِسْتِ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ” [صحيح البخاري: 294]

«ہم حج کے ارادہ سے نکلے ۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہوگئی اور اس رنج میں رونے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں کیا ہوگیا، کیا حائضہ ہوگئی ہو ، میں نے کہا، ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کرلو۔ البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی»

(6) سیدہ کا اپنے محبوب کو کنگھی کرنا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“كُنْتُ أُرَجِّلُ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا حَائِضٌ” [صحيح البخاري: 295]

“میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو حائضہ ہونے کی حالت میں بھی کنگھی کیا کرتی تھی»

(7) “گودِ عائشہ رضی اللہ عنھا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوتِ قرآن”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

‏‏‏‏‏‏”أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَّكِئُ فِي حَجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ” [صحيح البخاري: 297]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے، حالانکہ میں اس وقت حیض والی ہوتی تھی»

(8) “حج کے بعد عمرہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی خواہش کی تکمیل”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“أَهْلَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتُ مِمَّنْ تَمَتَّعَ وَلَمْ يَسُقْ الْهَدْيَ، ‏‏‏‏‏‏فَزَعَمَتْ أَنَّهَا حَاضَتْ وَلَمْ تَطْهُرْ حَتَّى دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَذِهِ لَيْلَةُ عَرَفَةَ وَإِنَّمَا كُنْتُ تَمَتَّعْتُ بِعُمْرَةٍ ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَمْسِكِي عَنْ عُمْرَتِكِ فَفَعَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَضَيْتُ الْحَجَّ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي نَسَكْتُ” [صحيح البخاري: 316]

«میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کیا، میں تمتع کرنے والوں میں تھی اور ہدی یعنی قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لے گئی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے متعلق بتایا کہ پھر وہ حائضہ ہوگئی ہیں اور عرفہ کی رات آگئی اور ابھی تک وہ پاک نہیں ہوئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! آج عرفہ کی رات ہے اور میں عمرہ کی نیت کر چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے سر کو کھول ڈال اور کنگھا کر اور عمرہ کو چھوڑ دے، میں نے ایسا ہی کیا، پھر میں نے حج پورا کیا، اور لیلۃ الحصبہ میں عبدالرحمٰن بن ابوبکر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، وہ مجھے اس عمرہ کے بدلہ میں جس کی نیت میں نے کی تھی تنعیم سے دوسرا عمرہ کرا لائے»

(9) “گمشدہ ہار کی تلاش: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور شریعت کی آسانی”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ ؟ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسِ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ:‏‏‏‏ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَأَصَبْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ” [صحيح البخاري: 334]

«ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر غزوہ بنی المصطلق میں تھے، جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا عائشہ رضی اللہ عنھا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔ پھر ابوبکر صدیق ؓ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے ۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا، حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ والد ماجد رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انہوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں چوکے لگائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کرسکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا»

(10) “سیدہ کی وجہ سے پوری امت کے لیے خیر”:
سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ:

“جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ ذَلِكِ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ خَيْرًا” [صحيح البخاري: 336]

«آپ کو اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ دے، واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی»

(11) “سیدہ کے بستر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَايَ فِي قِبْلَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَالْبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ” [صحيح البخاري: 382]

«میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سو جاتی اور میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ میں ہوتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے، تو میرے پاؤں کو آہستہ سے دبا دیتے۔ میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور آپ جب کھڑے ہو جاتے تو میں انہیں پھر پھیلا دیتی۔ ان دنوں گھروں میں چراغ بھی نہیں ہوا کرتے تھے»

(12) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ کو کھیل دکھانا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْظُرُ إِلَى لَعِبِهِمْ” [صحيح البخاري: 454 ]

«میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازے پر دیکھا، اس وقت حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں نیزوں سے کھیل رہے تھے یعنی ہتھیار چلانے کی مشق کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی چادر میں چھپالیا تاکہ میں ان کا کھیل دیکھ سکوں»

(13) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا چاشت کی نماز پر استقامت”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ سُبْحَةَ الضُّحَى وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا” [صحيح البخاري: 1177]

«میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر میں خود پڑھتی ہوں»

نوٹ: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے صرف اپنی رؤیت کی نفی کی ہے، ورنہ بہت سی روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نماز پڑھنا مذکور ہے، جماعت صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے، جیسے انس، ابوہریرہ، ابو ذر، ابو اسامہ، عقبہ بن عبد، ابن ابی اوفیٰ، ابو سعید، زید بن ارقم، ابن عباس، جبیر بن مطعم، حذیفہ، ابن عمر، ابو موسی، عتبان، عقبہ بن عامر، علی، معاذ بن انس، ابو بکرہ اور ابو مرہ وغیرہم رضی اللہ عنہم نے۔

(14) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا ایثار: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آخری خواہش کی تکمیل”
عمرو بن میمون اودی فرماتے ہیں۔

“رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ فَقُلْ:‏‏‏‏ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَقْبَلَ،‏‏‏‏ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا لَدَيْكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلِّمُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْ:‏‏‏‏ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ” [صحيح البخاري: 1392]

«میری موجودگی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا، لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنھا کو ترجیح دیتی ہوں، جب ابن عمر رضی اللہ عنھما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیر المؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھا کرلے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا»

(15) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری سانسوں کی ساتھی”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَعَذَّرُ فِي مَرَضِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ؟ ‏‏‏‏‏‏أَيْنَ أَنَا غَدًا اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ؟ ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَدُفِنَ فِي بَيْتِي” [صحيح البخاري: 1389]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے، آج میری باری کن کے ہاں ہے۔ کل کن کے ہاں ہوگی؟ عائشہ رضی اللہ عنھا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چناچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن کئے گئے»

(16) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی باری: صحابہ کے تحائف کا خاص دن”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمِي” [صحيح البخاري: 2580]

«لوگ تحائف بھیجنے کے لیے میری باری کا انتظار کیا کرتے تھے»

(17) “وحی کا نزول: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے لحاف میں”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

‏‏‏‏‏‏”فَإِنَّ الْوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ إِلَّا عَائِشَةَ” [صحيح البخاري: 2581]

«سیدہ عائشہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے»

(18) “محبتِ نبوی کی طلب: سیدہ سودہ رضی اللہ عنھا کا عظیم فیصلہ”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، ‏‏‏‏‏‏غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏تَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [صحيح البخاري: 2593]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لیے قرعہ اندازی کرتے اور جن کا قرعہ نکل آتا انہیں کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی تمام ازواج کے لیے ایک ایک دن اور رات کی باری مقرر کردی تھی، البتہ آخر میں سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنھا کو دے دی تھی، اس سے ان کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنی تھی»

(19) “سیدہ کی برات اور پاکدامنی”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ لِأَبِي:‏‏‏‏ أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِأُمِّي:‏‏‏‏ أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ سَمِعْتُمْ مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏وَوَقَرَ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَبَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏إِذْ قَالَ:‏‏‏‏ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَحَوَّلْتُ عَلَى فِرَاشِي وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَرِّئَنِي اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا ظَنَنْتُ أَنْ يُنْزِلَ فِي شَأْنِي وَحْيًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَأَنَا أَحْقَرُ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يُتَكَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فِي أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا رَامَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنِ الْبُرَحَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي يَوْمٍ شَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ احْمَدِي اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ بَرَّأَكِ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ لِي أُمِّي:‏‏‏‏ قُومِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَقُومُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [سورة النور آية: 11]. [صحيح البخاري: 2661]

«عائشہ! تمہارے متعلق مجھے یہ یہ باتیں معلوم ہوئیں ہیں۔ اگر تم اس معاملے میں بری ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری برات ظاہر کر دے گا اور اگر تم نے گناہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو ختم کی، میرے آنسو اس طرح خشک ہوگئے کہ اب ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے متعلق کہیے، لیکن انہوں نے کہا، قسم اللہ کی! مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے، میں نے اپنی ماں سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ ہی کچھ کہیے، انہوں نے بھی یہی فرما دیا کہ قسم اللہ کی! مجھے معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہنا چاہیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نو عمر لڑکی تھی۔ قرآن مجھے زیادہ یاد نہیں تھا۔ میں نے کہا اللہ گواہ ہے، مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگوں نے بھی لوگوں کی افواہ سنی ہیں اور آپ لوگوں کے دلوں میں وہ بات بیٹھ گئی ہے اور اس کی تصدیق بھی آپ لوگ کر چکے ہیں، اس لیے اب اگر میں کہوں کہ میں اس بہتان سے بری ہوں، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی اس سے بری ہوں تو آپ لوگ میری اس معاملے میں تصدیق نہیں کریں گے۔ لیکن اگر میں گناہ کو) اپنے ذمہ لے لوں، حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کی تصدیق کردیں گے۔ قسم اللہ کی! میں اس وقت اپنی اور آپ لوگوں کی کوئی مثال یوسف علیہ السلام کے والد یعقوب علیہ السلام) کے سوا نہیں پاتی کہ انہوں نے بھی فرمایا تھا “فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏” صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم کہتے ہو اس معاملے میں میرا مدد گار اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے بعد بستر پر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور مجھے امید تھی کہ خود اللہ تعالیٰ میری برات کرے گا۔ لیکن میرا یہ خیال کبھی نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہوگی۔ میری اپنی نظر میں حیثیت اس سے بہت معمولی تھی کہ قرآن مجید میں میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو۔ ہاں مجھے اتنی امید ضرور تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے بری فرما دے گا۔ اللہ گواہ ہے کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور نہ اس وقت گھر میں موجود کوئی باہر نکلا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور شدت وحی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح پسینے پسینے ہو جایا کرتے تھے وہی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اب بھی تھی۔ پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا، جب وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا اے عائشہ! اللہ کی حمد بیان کر کہ اس نے تمہیں بری قرار دے دیا ہے۔ میری والدہ نے کہا بیٹی جا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا کر کھڑی ہوجا، میں نے کہا، نہیں قسم اللہ کی میں آپ کے پاس جا کر کھڑی نہ ہوں گی اور میں تو صرف اللہ کی حمد و ثنا کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی “إن الذين جاء وا بالإفک عصبة منكم‏” «جن لوگوں نے تہمت تراشی کی ہے۔ وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں»

(20) “سیدنا اسامہ اور بریرہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر گواہیاں”:
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

“أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَامَةَ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أُسَامَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ بَرِيرَةُ:‏‏‏‏ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ يَعْذِرُنَا فِي رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْ أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا. [صحيح البخاري: 2637]

«مجھے عروہ، ابن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی حدیث کے متعلق خبر دی اور ان کی باہم ایک کی بات دوسرے کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی عائشہ رضی اللہ عنھا کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اب تک اس سلسلے میں وحی نہیں آئی تھی، اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ آپ کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنھا میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے اور بریرہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جاسکے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندتی اور پھر جا کے سو رہتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد فرمایا کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق بھی مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں»

(21) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ہمسفر”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيَّتُهُنَّ يَخْرُجُ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ. [صحيح البخاري: 2879]

«جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جانا چاہتے جہاد کے لیے تو اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکل آتا انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے جاتے تھے، ایک غزوہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان قرعہ اندازی کی تو اس مرتبہ میرا نام آیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی، یہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے»

(22) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فوری حمایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی دفاعی گفتگو”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

‏‏‏‏‏‏”أَنَّ الْيَهُودَ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ السَّامُ عَلَيْكَ فَلَعَنْتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ” [صحيح البخاري: 2935]

«بعض یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا السام عليك‏.‏ “تم پر موت آئے” میں نے ان پر لعنت بھیجی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کیا انہوں نے ابھی جو کہا تھا آپ نے نہیں سنا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے اس کا کیا جواب دیا و عليكم یعنی تم پر بھی وہی آئے (یعنی میں نے کوئی برا لفظ زبان سے نہیں نکالا صرف ان کی بات ان ہی پر لوٹا دی)۔

(23) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے جبرئیل کا مبارک سلام”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

‏‏‏‏‏‏”أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهَا:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” [صحيح البخاري: 3217]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: اے عائشہ! یہ جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں، عائشہ رضی اللہ عنھا نے جواب میں کہا کہ و علیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ»

(24) “تمام خواتین میں سیدہ عائشہ کی نمایاں شان”:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ” [صحيح البخاري: 3433]

«عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی»

(25) “سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھا کی زبان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان”:
قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

‏‏‏‏‏‏”أَنَّ عَائِشَةَ اشْتَكَتْ فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ تَقْدَمِينَ عَلَى فَرَطِ صِدْقٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى أَبِي بَكْرٍ” [صحيح البخاري : 3771]

«سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیمار پڑیں تو ابن عباس رضی اللہ عنھما عیادت کے لیے آئے اور عرض کیا: ام المؤمنین! آپ تو سچے جانے والے کے پاس جا رہی ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کے پاس عالم برزخ میں ان سے ملاقات مراد تھی»

(26) “سیدنا عمار کا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعریف”:
ابو وائل فرماتے ہیں کہ:

“لَمَّا بَعَثَ عَلِيٌّ عَمَّارًا وَالْحَسَنَ إِلَى الْكُوفَةِ لِيَسْتَنْفِرَهُمْ خَطَبَ عَمَّارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَكِنَّ اللَّهَ ابْتَلَاكُمْ لِتَتَّبِعُوهُ أَوْ إِيَّاهَا” [صحيح البخاري: 3772]

«جب علی رضی اللہ عنہ نے عمار اور حسن رضی اللہ عنھما کو کوفہ بھیجا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے تیار کریں تو عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: مجھے بھی خوب معلوم ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ دیکھے تم علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے ہو جو بر حق خلیفہ ہیں یا عائشہ رضی اللہ عنھا کی اتباع کرتے ہو»

(27) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مبارک نکاح”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ،‏‏‏‏ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ،‏‏‏‏ فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي فَوَفَى جُمَيْمَةً فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي فَصَرَخَتْ بِي،‏‏‏‏ فَأَتَيْتُهَا لَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي،‏‏‏‏ فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّى أَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ وَإِنِّي لَأُنْهِجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي،‏‏‏‏ ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي،‏‏‏‏ ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ،‏‏‏‏ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ،‏‏‏‏ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى،‏‏‏‏ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ” [صحيح البخاري: 3894]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ ہجرت کر کے آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا۔ یہاں آ کر مجھے بخار چڑھا اور اس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنھا آئیں۔ اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوں نے مجھے پکارا تو میں حاضر ہوگئی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کردیا اور میرا سانس پھولا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں، جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر و برکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو۔ میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے میری آرائش کی۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی»

(28) “نبوی خواب میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی تصویر”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“أُرِيتُكِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أَرَى أَنَّكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ هَذِهِ امْرَأَتُكَ فَاكْشِفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ:‏‏‏‏ إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ” [صحيح البخاري: 3895]

«تم مجھے دو مرتبہ خواب میں دکھائی گئی ہو ، میں نے دیکھا کہ تم ایک ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور کہا جا رہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں ان کا چہرہ کھولیے ۔ میں نے چہرہ کھول کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو وہ خود اس کو پورا فرمائے گا”

(29) “جبریل کی بشارت: عائشہ رضی اللہ عنھا آپ کی دنیا و آخرت کی زوجہ”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ” [سنن الترمذي: 3880]

«جبرائیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں»

(30) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین زوجہ”:
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا کہ:

“أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوهَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَدَّ رِجَالًا فَسَكَتُّ مَخَافَةَ أَنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ” [صحيح البخاري: 4358]

«آپ کو سب سے زیادہ عزیز کون شخص ہے؟ فرمایا کہ عائشہ، میں نے پوچھا اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے والد، میں نے پوچھا، اس کے بعد کون؟ فرمایا کہ عمر۔ اس طرح آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے بس میں خاموش ہوگیا کہ کہیں آپ مجھے سب سے بعد میں نہ کردیں»

(31) “رسول اللہ کی محبت پر ناز کرنے والی سیدہ عائشہ کی شانِ اعلیٰ”:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

“دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا بُنَيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا، ‏‏‏‏‏‏يُرِيدُ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَبَسَّمَ” [صحيح البخاري: 5218]

« سیدنا عمر فاروق رضی اللہ حفصہ کے ہاں گئے اور ان سے کہا کہ بیٹی اپنی اس سوکن کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آجانا جسے اپنے حسن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز ہے۔ آپ کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے یہی بات آپ کے سامنے دہرائی آپ مسکرا دیئے»

(32) “نبی کریم کا عائشہ رضی اللہ عنہا کی کیفیت کو جاننا”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكِ تَقُولِينَ:‏‏‏‏ لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، ‏‏‏‏‏‏قُلْتِ:‏‏‏‏ لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَجَلْ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ” [صحيح البخاري: 5228]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہوجاتی ہو۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا آپ یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! غصے میں صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی»

(33) “سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا مرکز”
قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

قَالَتْ عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ. [صحيح البخاري: 5666]

سر کے شدید درد کی وجہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ہائے رے سر! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایسا میری زندگی میں ہوگیا یعنی تمہارا انتقال ہوگیا ہو تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا، عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا افسوس، اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ آپ میرا مرجانا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ تو اسی دن رات اپنی کسی بیوی کے یہاں گزاریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ میں خود درد سر میں مبتلا ہوں۔ میرا ارادہ ہوتا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں (خلافت کی) وصیت کر دوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں کہ خلافت ہمارا حق ہے یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں کہ ہم خلیفہ ہو جائیں، پھر میں نے اپنے جی میں کہا اس کی ضرورت ہی کیا ہے، خود اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے»

(34) “نبی کے پہلو میں آخری دم تک شریکِ حیات”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْفُثُ عَلَى نَفْسِهِ فِي الْمَرَضِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا ثَقُلَ كُنْتُ أَنْفِثُ عَلَيْهِ بِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمْسَحُ بِيَدِ نَفْسِهِ لِبَرَكَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ:‏‏‏‏ كَيْفَ يَنْفِثُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ يَنْفِثُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ” [صحيح البخاري: 5737]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات «سورۃ الاخلاص، سورة الفلق اور سورة الناس» کا دم کیا کرتے تھے، پھر جب آپ کے لیے دشوار ہوگیا تو میں ان کا دم آپ پر کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی، پھر میں نے اس کے متعلق پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ اپنے ہاتھ پر دم کر کے ہاتھ کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے»

(35) “سیدہ عائشہ کی گڑیاں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھری مسکراہٹ کا سبب”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ أَوْ خَيْبَرَ وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ لُعَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ بَنَاتِي وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَرَسٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ جَنَاحَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ” [سنن ابي داود: 4932، حسن]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے آئے، اور ان کے گھر کے طاق پر پردہ پڑا تھا، اچانک ہوا چلی، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیا، اور عائشہ رضی اللہ عنھا کی گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے فرمایا: عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا: یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولیں: گھوڑا، آپ نے فرمایا: اور یہ کیا ہے جو اس پر ہے؟ وہ بولیں: دو بازو، آپ نے فرمایا: گھوڑے کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ وہ بولیں: کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا ایک گھوڑا تھا جس کے بازو تھے، یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں»

(36) “محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: عائشہ کی خواہش پر کنیت کی عطا”:
سیدہ عائشہ رضی عنھا فرماتی ہیں۔

“يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كُلُّ صَوَاحِبِي لَهُنَّ كُنًى،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ فَاكْتَنِي بابنِكِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ يَعْنِي ابْن أخْتُهَا،‏‏‏‏ قَالَ مُسَدَّدٌ:‏‏‏‏ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَتْ تُكَنَّى بِأُمِّ عَبْدِ اللَّهِ” [سنن ابي داود: 4970، صحیح]

«اے اللہ کے رسول! میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں، آپ نے فرمایا: تو تم اپنے بیٹے یعنی اپنے بھانجے عبداللہ کے ساتھ کنیت رکھ لو»

(37) “سیدہ کی بریرہ پر شفقت”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَهْلُهَا:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتِهَا مَا بَقِيَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتِ أَعْتَقْتِهَا وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَّرَتْهُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً:‏‏‏‏ فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ” [صحيح البخاري: 456]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ بریرہ “لونڈی” ان سے اپنی کتابت کے بارے میں مدد لینے آئیں، عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا تم چاہو تو میں تمہارے مالکوں کو یہ رقم دے دوں اور تمہیں آزاد کرا دوں اور تمہارا ولاء کا تعلق مجھ سے قائم ہو۔ اور بریرہ کے آقاؤں نے کہا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہ اگر آپ چاہیں تو جو قیمت باقی رہ گئی ہے وہ دے دیں اور ولاء کا تعلق ہم سے قائم رہے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید کر آزاد کرو اور ولاء کا تعلق تو اسی کو حاصل ہوسکتا ہے جو آزاد کرائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، سفیان نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے، ایک مرتبہ یوں کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا، ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ایسی شرائط کرتے ہیں جن کا تعلق کتاب اللہ سے نہیں ہے۔ جو شخص بھی کوئی ایسی شرط کرے جو کتاب اللہ میں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، اگرچہ وہ سو مرتبہ کرلے»

(38) “سیدہ عائشہ کا انفاق فی سبیل اللہ”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ” [صحيح البخاري: 1418]

«ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی ہے۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی ہے۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی»

(39) “محبتِ نبوی کی جھلک: سیدہ کے کھیل کا لحاظ”:
سیدہ عائشہ رضی عنھا فرماتی ہیں۔

“كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ يُسَرِّبُ إِلَيَّ صَوَاحِبَاتِي يُلَاعِبْنَنِي” [سنن ابن ماجة: 1982، صحیح]

«میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے»

(40) “عائشہ کا جواب، نبی کی مسکراہٹ”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

“مَا عَلِمْتُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَيَّ زَيْنَبُ بِغَيْرِ إِذْنٍ وَهِيَ غَضْبَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمّ قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَحَسْبُكَ إِذَا قَلَبَتْ بُنَيَّةُ أَبِي بَكْرٍ ذُرَيْعَتَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقَبَلَتْ عَلَيَّ فَأَعْرَضْتُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ دُونَكِ فَانْتَصِرِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا حَتَّى رَأَيْتُهَا وَقَدْ يَبِسَ رِيقُهَا فِي فِيهَا مَا تَرُدُّ عَلَيَّ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ” [سنن ابن ماجة: 1981، حسن]

«مجھے معلوم ہونے سے پہلے زینب بنت جحش ؓ میرے گھر میں بغیر اجازت کے آگئیں، وہ غصہ میں تھیں، کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ابوبکر کی بیٹی اپنی آغوش آپ کے لیے وا کر دے؟ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں، میں نے ان سے منہ موڑ لیا، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تو بھی اس کی خبر لے اور اس پر اپنی برتری دکھا تو میں ان کی طرف پلٹی، اور میں نے ان کا جواب دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ان کا تھوک ان کے منہ میں سوکھ گیا، اور مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ کھل اٹھا تھا»

(41) “عائشہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو”:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ” [صحيح البخاري: 2581]

«عائشہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: ہیجان انگیز جنسی عنوانات اور سوشل میڈیا پر اسلامی چینلز کی اخلاقی ذمہ داری