عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے اجر میں شراکت
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
ربِّ رحیم کی اہلِ ایمان پر مہربانیاں، اور احسانات وعطیات حدِّ احصا سے خارج ہیں۔
اللہ رءوف ورحیم کی مہربانی کا ایک عظیم مظہر یہ ہے کہ مومن جہاں نماز اور روزے سے اجر وثواب حاصل کرتا ہے وہیں وہ بحیثیتِ مومن اپنے غم، دکھ درد، اور دیگر مصائب پر رضائے الہٰی کی خاطر صبر کرنے کی وجہ سے بھی خوب خوب اجر وثواب کا مستحق ہو جاتا ہے۔
یہ اجر وثواب بھی صرف اپنی نجی زندگی تک سمٹا ہوا نہیں ہے، بلکہ ایک مومن جب دوسرے مومن کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتا ہے، تو اس پہلو سے بھی وہ رب العالمین کی عنایتوں سے نوازا جاتا ہے۔
عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا غم
( آبرو ) انسان کا گراں بہا سرمایہ ہے، باعزت انسان کے لیے یہ سب سے بڑی چیز ہے۔
عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا فی نفسہ عالی نسب اور رفعتِ کردار کی مالکہ تھیں، مستزاد یہ کہ وہ حرمِ نبوت میں تھیں ایسے میں صدیقہ بنت صدیق جیسی پاک دامن وآبرو دان خاتون کو قذف کا سامنا کرنا؛ تصور کیجیے آپ پر کیا گزری ہوگی!!
عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا اس واقعہ کو سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں۔ آپ رات دن روتی رہتی تھیں، آنکھوں سے آنسو ختم ہوگئے۔ پہلے تو اس واقعے سے آپ بے خبر تھیں، بالآخر اس جھوٹ نے آپ کو چور چور کر دیا، آپ کہتی ہیں:
فَبَكَيْتُ تلك اللَّيلةَ حتى أصبحْتُ لا يَرْقَأُ لي دَمْعٌ ولا أَكْتَحِلُ بنَومٍ، حتى أَصْبحتُ أبْكي،
میں ساری رات روتی رہی، صبح ہوگئی مگر نہ آنسو رکتے تھے اور نہ نیند آتی تھی، صبح ہوئی تو میں پھر بھی روتی رہی۔
( تفصیل کے لیے دیکھیے: *صحيح البخاري*: كتاب التفسير. نمبر: 4750، وصحيح مسلم: كتاب التوبة. نمبر: 2770 ).
*صدیقہ کی براءت*
اس حادثے کے مکمل ایک ماہ بعد رب العالمین کی طرف سے دس آیتیں آپ کی براءت اور رسول اللہ ﷺ کی ناموس کی حفاظت کے طور پر نازل کی گئیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾،
بے شک جو لوگ (ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا) سے متعلق نہایت قبیح جھوٹ گھڑ لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے۔ تم اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ( *النور*: 11 ).
مقصدِ تحریر
اس حادثے کا براہِ راست اور بالذات تعلق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھا، حقیقت میں غمزدہ، بے قرار اور مضطرب آپ ہی تھیں۔
ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کی حرمِ محترم کی براءت تو کر دی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے تسلی بخش کلمات اور بشارت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سمیت جو جو آپ کے غم اور دکھ درد میں شریک رہے ان سبھوں کو بھی دی۔
اسی لیے اس بات کو صیغۂ جمع میں کہا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾.
یہ بات چوتھی صدی ہجری کے نامور عالمِ دین، اسلام کے بہادر سپاہی *ابو احمد محمد بن علی الکرجی القصاب* (ت 360ھ) رحمہ اللہ نے کہی ہے۔
آپ اپنی مشہور اور بے حد مفید کتاب، اور اہل السنہ والجماعہ کے عقیدہ ومنہج کی نمائندہ تفسیر ( *نكت القرآن الدالة على البيان*: ٢/٤٣٣ ) میں فرماتے ہیں:
أَنَّ مَن لحقه غمٌّ بالمتقوَّل عليه من الزور شريكه في الأجر، لأن المرمية بالإفك أم المؤمنين رضي الله عنها وحدها، فجمع الله معها من لحقه أذى القول معها ورسول الله ﷺ وأبويها، وكل من لحقه غم بسببها، فقال: ﴿لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾ على لفظ الجميع*.
جو مسلمان کسی معصوم اور متَّہَم کیے گئے مسلمان کے غم اور دکھ کا حصہ بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے اجر وثواب میں بھی اپنا حصہ پاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ واقعۂ افک میں قذف کا تعلق محض عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے تھا تاہم اجر وثواب، سرور وبشارت، تسلی اور دلجمعی کے کلمات میں صدیقہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ، صدیقہ کے والدین، اور دنیا کے وہ سبھی مسلمان جو آپ کے غم میں شریک ہیں وہ سب اس آیت میں داخل ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو صیغۂ جمع میں بتائے ہیں، کہا:
﴿لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾.
١٨ رمضان ١٤٤٤ھ، الإثنين
*محمد معاذ أبو قحافة*