سوال (1488)
اگر سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنھا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت سے حصہ نہیں ملا تھا تو امی عائشہ رضی اللہ عنھا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ بطور وراثت کیوں ملا تھا ؟ اس کی وضاحت فرمائیں ۔
جواب
الحمد اللہ سالہا سال سے اس پر مستقل کام ہوچکا ہے ، ان اعتراضات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس قسم کے جاہل لوگوں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے مبارک بنائے تھے ، وہ مشکل سے چھ بائے چھ یا آٹھ بائے آٹھ کے تھے ، بسا اوقات بندہ لیٹے تو پیر بھی باہر چلے جاتے تھے ، وہ حجرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجات کے لیے ہی بنائے تھے ، وہ حجرے شروع سے ہی ازواج مطہرات ہی کی ملکیت تھی ، ان گھروں کو قرآن پاک میں امھات المومنین کا گھر کہا گیا ہے ۔
“وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا” [سورة الاحزاب: 34]
«اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے»
یہ ازواج مطہرات کے گھر تھے ، یہ گھر ازواج مطہرات کو بطور ورثے اور ترکے کے نہیں ملے تھے ، خاوند اپنی زوجہ کو اپنی زندگی میں جو چاہے دے دے ۔
یہ عجیب بات ہے ، ایک نئی جہالت کو اٹھا کر شور کیا جا رہا ہے ، اس قسم کی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، باقی اہل علم نے اس پر کام کیا ہے ، “تحفہ اثنا عشریہ” دیکھ لیں ، اس کے علاوہ میرے بھی دو تین جمعے “باغ فدک اور وراثت” کے بارے میں ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ