سوال (1403)
مفتی طارق مسعود صاحب بیان کر رہے تھے کہ سند کو بڑی فضیلت حاصل ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ان کے علاج کے لیے سند سے ایک بندہ گیا۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے جب دورہ حدیث میں صحیح بخاری کی یہ روایت پڑھی جاء رجل من السند إلى عائشة…. تو مجھے بہت مزہ آیا… وغیرہ، کیا یہ روایت صحیح بخاری میں ہے؟
جواب
یہ تو مفتی صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کون سے دورہ حدیث میں کس بخاری میں یہ روایت پڑھی ہے۔ البتہ ہمارے علم کے مطابق موطا مالک وغیرہ میں درج ذیل روایت موجود ہے:
«حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ…إن عائشة مرضت… فدخل عليها سندي فقال: إنك مطبوبة. فقالت: من طبني؟ قال: امرأة من نعتها كذا وكذا فوصفها…». [موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري 2/ 422 برقم 2782]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیماری ہوئیں تو ایک سندی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کس نے کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ فلاں فلاں طرح کی عورت ہے…’۔
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موطا مالک ’روایۃ الشیبانی’ (برقم 843) میں بھی ہے، اسی طرح بیہقی نے اس کو شافعی اور قعنبی وغیرہ کے طریق سے بھی ذکر کیا ہے۔ [معرفة السنن والآثار 14/ 427 برقم ]
امام ابن الاثیر لکھتے ہیں:
«والسندي: منسوب إلى السند وهم ناس معروفون من جنس الهنود أو قريب منهم، وبلادهم جميعًا متصلة من جهة المشرق». [الشافي في شرح مسند الشافعي 5/ 514]
موطا کی ایک اور شرح میں لکھا ہے:
«رجل سِنْديّ، بكسر السين المهملة وسكون النون وكسر الدال نسبة إلى السند من بلاد الهند، كانت في الإِقليم الثالث من الأقاليم السبعة». [المهيأ في كشف أسرار الموطأ 4/ 143]
مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے، جس کے الفاظ یوں ہیں:
«اشْتَكَتْ عَائِشَةُ، فَطَالَ شَكْوَاهَا، فَقَدِمَ إِنْسَانٌ الْمَدِينَةَ يَتَطَبَّبُ، فَذَهَبَ بَنُو أَخِيهَا يَسْأَلُونَهُ عَنْ وَجَعِهَا». [مسند أحمد 40/ 154 ط الرسالة برقم 24126، قال الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (4/ 252): رجاله رجال الصحيح، وصححه الألباني في ((إرواء الغليل)) (1757)]
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک عرصہ سے بیمار تھیں، اسی دوران ایک شخص مدینہ میں آیا تو آپ کے بھتیجوں نے اس سے رابطہ کر کے بیماری سے متعلق پوچھا…۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت بخاری میں نہیں مل سکی، البتہ موطا مالک وغیرہ دیگر کتبِ حدیث میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔ اور اس میں حضرت عائشہ پر جادو کی تشخیص کرنے والے شخص کے بارے میں صراحت ہے کہ اس کا تعلق سند سے تھا، البتہ اس بات کی وضاحت نہیں کہ اس کو باقاعدہ سند سے اسی کام کے لیے بلوایا گیا تھا بلکہ مسند احمد کی روایت کے مطابق جس شخص سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیماری سے متعلق پوچھا گیا تھا، وہ خود مدینہ آیا تھا، اسے کوئی سند سے بلوانے نہیں گیا تھا!
مشہور خطباء و مقررین کے ہاں یہ مسئلہ عام موجود ہے کہ وہ روایات بیان کرنے میں کمی بیشی کر جاتے ہیں۔ کیونکہ ایک تو ان کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے کہ وہ باقاعدہ ہر موضوع کی کما حقہ تیاری نہیں کر پاتے، دوسرا موضوع کی تیاری کی بھی ہو، تو اس قسم کی باتیں اور نکات فی البدیہہ ذہن میں آ جاتے ہیں، لہذا جیسے تیسے بات تھوڑی بہت یاد ہوتی ہے، اسی طرح بیان کر دی جاتی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن خطیب صاحب کا ایک حلقہ احباب و مریدین بن جاتا ہے اور ہر طرف حضرت حضرت کرنے والے موجود ہوتے ہیں، ان پر ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا’ کا غلبہ ہو جاتا ہے، لہذا وہ جیسے تیسے بھی بیان کر دیں ان کے مخاطبین میں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہوتا، اس لیے ان کے ہاں تساہل آ جاتا ہے۔
حالانکہ کسی عالم دین کا حلقہ جس قدر وسیع ہوتا ہے، انہیں احساسِ ذمہ داری کو بھی زیادہ محسوس کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے تین تجاویز پیشِ خدمت ہیں:
1۔ مکمل تیاری کرکے ہی کوئی چیز بیان کرنی چاہیے، بلا تیاری بیان اور تقریر سے گریز کرنا چاہیے، اگر مصروفیات زیادہ ہیں، تو باقاعدہ ریسرچ ٹیم کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ آپ کو مکمل موضوعات تیار کر کے دیں، جیسا کہ بعض علماء و خطباء یہ کام کرتے ہیں۔
2۔ اصل موضوع پر رہیں، جس کی تیاری کی ہوئی ہے اور استطرادات سے گریز کریں تاکہ لا شعوری طور پر غلطیوں سے بچا جا سکے! بالفرض اگر کوئی بات بیان کرنا پڑ بھی جائے تو جو معلومات مستحضر نہیں ہیں، انہیں بالجزم بیان کرنے کی بجائے اس طرح بیان کریں کہ سننے والوں میں جو تحقیق کرنا چاہے، کر سکے! اور غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اشارہ پہلے سے آپ کی گفتگو میں موجود ہو۔ مثلا حالیہ روایت کو اس طرح بیان کیا جا سکتا تھا کہ حدیث کی کسی کتاب میں شاید بخاری میں یا کسی دوسری کتاب میں یہ روایت ہے کہ….!! لیکن اگر آپ بالجزم کسی چیز کو بیان کرتے ہیں اور کتاب کا نام بھی لیتے اور باقاعدہ الفاظ بھی بنا لیتے ہیں، تو اس سے عذر کی گنجائش کم ہو جاتی ہے بلکہ تکذیب اور نیت پر حملے کی راہ ہموار ہوتی ہے!
3۔ تقاریر و بیانات کی ریکارڈنگ کے بعد بھی ریسرچ ٹیم کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ انہیں مکمل طور پر سن کر، تحقیق کے بعد ہی نشر کریں، تاکہ اگر بشری تقاضے سے کوئی اونچ نیچ ہو بھی گئی ہے، تو اس کا ازالہ کیا جا سکے۔
جدید دور میں ایک بڑی مصیبت ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر نشر و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے ایڈیٹنگ، ڈیزائننگ، ریکارڈنگ، سوشل میڈیا ہیڈلنگ کے لیے ایک پوری ٹیم ہائر کر لی جاتی ہے، لیکن اصل چیز جو مواد ہے، اس کی تیاری اور تحقیق و تنقیح کے لیے باقاعدہ پروفیشنلز ہائر کرنے میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ پروگرام ریکارڈ کر کے اس کی ایڈیٹنگ میں بھی فنی لحاظ سے گھنٹوں صرف کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے تحقیقی معیار کو بہتر بنانے میں سستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ