سوال (5392)
کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نماز جنازہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہیں پڑھا تھا یا ان کے نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تھے؟
جواب
ایسی کوئی بات ثابت نہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی۔ بعض روایات کے اندر یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اطلاع نہیں کی تھی، لیکن اس سے یہ لازمی نہیں آتا کہ خود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اطلاع کے انتظار میں بیٹھے رہے ہوں کہ مجھے وہ بلائیں گے تو میں جاؤں گا.
بلکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دینے والوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت أسماء بنت عميس رضي الله عنہا ہی تھیں، یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بیوی غسل دینے والی ہو اور شوہر کو وفات کا پتہ ہی نہ ہو؟
چنانچہ ابو العباس القرطبی فرماتے ہیں:
“ودفْنُ علي لفاطمة ليلا، يحتمل أن يكون ذلك مبالغة في صيانتها. وكونه لم يؤذن أبا بكر بها؛ لعله إنما لم يفعل ذلك لأن غيرَه قد كفاه ذلك، أو خاف أن يكون ذلك من باب النعي المنهي عنه، وليس في الخبر ما يدل على: أن أبا بكر لم يعلم بموتها، ولا صلّى عليها، ولا شاهد جنازتها، بل اللائق بهم، المناسب لأحوالهم: حضور جنازتها، واغتنام بركتها، ولا تسمع أكاذيب الرَّافضة المبطلين، الضالين، المضلين”.[المفهم 3/ 569]
جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی نے ابو بکر کو خبر نہیں دی تھی، اس کی اور بھی وجہ ہو سکتی ہے مثلا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کسی اور نے خبر دے دی ہو، بہر صورت روایات میں ایسی کوئی بات نہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے لاعلم رہے اور نہ انہوں نے ان کا جنازہ پڑھا، بلکہ ان کی شایان شان یہی تھی کہ جنازہ میں شریک ہوتے، اس ضمن میں رافضیوں کے جھوٹ طوفانوں پر کان دھرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا، اس حوالے سے تین روایات ہیں، ایک یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہا نے پڑھایا، بعض روایات میں عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے، جبکہ بعض روایات میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ابن سعد کی الطبقات الكبرى ط دار صادر (8/ 29).
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
سیدنا ابوبکر صدیق کا جنازہ پڑھانا ہی صحیح ہے۔
کما اخبرنی الشیخ ابویحییٰ نورپوری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: دلیل بھی ذکر کر دی جائے تو بہتر ہے؟
جواب: ابن سعد کی روایت۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال کی وضاحت نمبروار کر دیتا ہوں۔
1۔ پہلی بات کہ سیدہ فاطمہؓ کے ابوبکرؓ کے پاس وراثت کے لئے جانے کی مختلف روایات آتی ہیں ان میں سے امام زہری والی روایت جو بخاری و مسلم میں ہے اس میں ایک بات کا اضافہ ملتا ہے کہ علیؓ نے ابوبکر کو بتائے بغیر رات کو خود ہی جنازہ پڑھا کر فاطمہؓ کو دفنا دیا اب دونوں قسم کی روایات میں تطبیق ایسے ممکن ہے کہ اس اضافے والی بات کو امام زہری کی اپنی رائے کہا جائے پس اسی تطبیق کو بعض نے قبول کرتے ہوئے اس امام زہری والی روایت کو حدیث مدرج کہا ہے۔
2۔ دوسری بات کہ اس امام زہری والی روایت میں چھ ماہ بعد علی کے ابوبکر کی بیعت کرنے کا ذکر ہے جبکہ دوسری کچھ روایات میں علیؓ کے شروع میں ہی ابو بکرؓ کی بیعت کرنے کا ذکر ہے ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق ایسے ہو سکتی ہے کہ علیؓ نے پہلے ہی بیعت کر لی تھی جیسا کہ دوسری روایات میں ملتا ہے البتہ کچھ عرصہ وہ ابو بکرؓ سے ناراض رہے کہ خلیفہ مقرر کرتے ہوئے علیؓ سے مشورہ کیوں نہیں کیا گیا جو جائز ناراضگی تھی مگر ابوبکرؓ کو فورا خلیفہ چننا بھی جائز مجبوری تھی۔ پس اسی روایت میں آگے یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ علیؓ نے بعد میں سب کے سامنے جا کر ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تو یہ بیعت دوبارہ غلط فہمی دور ہونے کے بعد تجدید بیعت کے طور پہ کی گئی تھی کہ لوگ جو سمجھ رہے تھے کہ علیؓ ابو بکر کے ساتھ نہیں وہ دور ہو جائے۔
3۔ تیسری بات کہ جب ایک سے زاید احتمالات ہوں تو شرعی لحاظ سے وہ احتمال چننا ہوتا ہے جس سے شریعت کے عمومی اصول کی بھی خلاف ورزی نہ ہو اور صحابہ کے اوپر بھی حق نہ آئے (جیسا کہ واقعہ افک میں دوسرا احتمال سوچنے والوں کی قرآن میں سرزنش کی گئی) پس یہاں اوپر والی تطبیق نہیں کریں گے تو صحابہ پہ طعن آئے گا تو جب دوسرا احتمال موجود ہے تو ہمیں اچھے گمان والا احتمال ہی لینا چاہئے۔
4۔ چوتھی بات کہ فرض کریں ہم یہ اچھی تطبیق والا احتمال نہیں لیتے تو پھر بھی یہ شیعان علیؓ والوں کے لئے ہی نقصان دہ ہو گا کیونکہ اگر علیؓ نے شروع میں بیعت نہیں کی تھی یا انہوں نے ابو بکر کو بتائے بغیر ہی جنازہ کروا دیا تھا تو یہ اھل سنت کے اصولوں کے مطابق غلطی علیؓ کی بنتی ہے نہ کہ ابوبکرؓ کی بنتی ہے پس اگر کوئی اھل سنت ہے تو اسکو تو یہ تطبیق دینا لازم ہے یاں اگر کوئی پہلے ہی اھل سنت سے خٓارج ہے تو اسکو پہلے اھل سنت کا منہج سمجھنا چاہئے پھر جب منہج کلیئر ہو گا تو اس کے مطابق ہی وہ قرآن یا حدیث سے ہدایت حاصل کر سکتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی آیت یا حدیث سے ایک نظریہ رکھنے والے اور نتیجہ نکال رہے ہوتے ہیں اور دوسرا عقیدہ رکھنے والے دوسرا نتیجہ نکال رہے ہوتے ہیں۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ