سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور خلفائے ثلاثہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام جنتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطا فرمائی ہیں۔ صحابہ کرام میں خلفاء راشدین کا مقام سب سے بلند اور نمایاں ہے، جنہوں نے دین اسلام کی ترویج و فروغ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہر دور میں اسلام پر مختلف حملے کیے گئے، جن میں ایک حملہ روافض نے بھی کیا ہے، جس کا مقصد صحابہ کرام کی عظمت کو مشکوک بنانا تھا تاکہ دین اسلام کی پہلی نسل، جو اس دین کے اصل راوی ہیں، ان کو کمزور کیا جا سکے۔ ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ صحابہ کرام، بالخصوص سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور خلفاء ثلاثہ کے درمیان دشمنیاں تھیں اور انہیں آپس میں ناانصافی کا سامنا تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کے درمیان کوئی دشمنی نہیں تھی، بلکہ ان کے درمیان محبت، احترام اور اخوت کا رشتہ تھا۔ ہم اس بات کو بیان کرتے ہیں تاکہ اس حقیقت کو اجاگر کیا جا سکے کہ خلفاء ثلاثہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان محبت کا رشتہ تھا اور ان کے اعمال و کردار دین اسلام کی چمکدار مثالیں ہیں۔

(1) “محبت بھرا منظر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تعلق اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مسکراہٹ”
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ” [صحيح البخاري: 3542]

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عصر کی نماز سے جیسے ہی فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حسن رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا: میرے باپ تم پر قربان ہوں تم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شباہت ہے۔ علی کی نہیں ہے ۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ ہنس رہے تھے یعنی خوش ہو رہے تھے۔

اس حدیث میں روافض کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آپس میں دشمنیاں تھی، کیا کوئی دشمن کو بیٹے کو اٹھاتا ہے؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن جو کندھے پر اٹھایا ہے، اس کے علاؤہ روافض کا یہ بھی رد ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور مخالف خیال کرتے ہیں، کیوں کہ یہ قصہ آپ کی وفات کے بعد کا ہے، کوئی بے وقوف بھی ایسا خیال نہیں کر سکتا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل و اولاد کے خیر خواہ اور جاں نثار بن کر رہے ہیں۔

(2) “سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح: اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب”
سیدنا ثعلبہ بن ابی مالک فرماتے ہیں کہ:

“إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُقَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاءٍ مِنْ نِسَاءِ الْمَدِينَةِ فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَكَ يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أُمُّ سَلِيطٍ أَحَقُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمُّ سَلِيطٍ مِنْ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏” [صحيح البخاري: 2881]

«سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں، ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے کہا ہے کہ یا امیرالمؤمنین! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئیے، جو آپ کے گھر میں ہیں۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ سے تھی لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ام سلیط رضی اللہ عنہ ان انصاری خواتین میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ احد کی لڑائی کے موقع پر ہمارے لیے مشکیزے (پانی کے) اٹھا کر لاتی تھیں»

معروف شیعہ مؤرخ احمد بن ابی یعقوب نے لکھا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ام کلثوم سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں، تو سیدنا علی نے فرمایا: وہ ابھی چھوٹی ہے۔ اس پر سیدنا عمر نے فرمایا جس طرف آپ کا دھیان گیا ہے، میرا وہ مقصد نہیں یعنی میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خانوادے سے نسبت قائم کرنا چاہتا ہوں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کا نکاح ان سے کر دیا ہے، سیدنا عمر نے دس ہزار دینا بطور مہر ادا کیے۔ [تاریخ الیعقوبی: ج 2، ص 149, 150]

(3) “سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تمنا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات”
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“لَمَّا وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ، ‏‏‏‏‏‏اكْتَنَفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلُّونَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ يُثْنُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ قَدْ زَحَمَنِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَخَذَ بِمَنْكِبِي، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتُّ فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَا خَلَّفْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَايْمُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَعَ صَاحِبَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ أَنِّي كُنْتُ أَكْثَرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ ذَهَبْتُ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَدَخَلْتُ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَخَرَجْتُ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتُ أَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ” [سنن ابن ماجه : 98]

«جب عمر رضی اللہ عنہ کو وفات کے بعد ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کا عمل آپ کے عمل سے زیادہ مجھے عزیز و پیارا ہو کہ میں اس عمل کو لے کر اللہ سے ملوں، اور قسم ہے اللہ کی! میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ رکھے گا، اس وجہ سے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر فرماتے ہوئے سنتا تھا: میں اور ابو بکر و عمر گئے، میں اور ابو بکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابو بکر و عمر نکلے، لہٰذا میں آپ کے ان باتوں کی وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ جنت میں رکھے گا»

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دل میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بہت مقام تھا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ شیخین رضی اللہ عنہما کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اس لیے تمنا کرتے تھے کہ کاش ان جیسے اعمال کی توفیق ملے۔

خود شیعہ عالم “بحار الانوار” میں رقمطراز ہے: سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب شہید کر دیے گئے اور آپ کی میت غسل و تکفین کے بعد لا کر رکھی گئی تو سیدنا علی فرمانے لگے کہ میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے شخص سے زیادہ محبوب کوئی نہیں [بحار الانوار، ج 28، ص: 117]

(4) “سیدنا ابو بکر صدیق کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ گہرا تعلق”
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي” [صحيح البخاري: 3712]

«اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتے داروں سے سلوک کرنا مجھ کو اپنی رشتے داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے»

(5) “سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک خلفاء ثلاثہ کا مقام”
محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ:

“أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَنْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ” [صحيح البخاري: 3671]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں»

یاد رہے کہ اس کو کسر ِنفسی کا نام دیا جائے یا کچھ اور لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ کسرِ نفسی کرتے ہوئے اپنے سے افضل تو کسی کو اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب اس کی عقیدت و محبت دل میں ہو، نیز اس بات کو خود شیعہ علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا علی سے یہ ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا اگر میرے پاس کوئی ایسا بندہ لایا گیا جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے تو میں اسے بہتان کی سزا دوں گا۔ [العیون و المحاسن، ص 122، ج: 2]

(6) “سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے خلفاء ثلاثہ کے طریقے پر فوت ہونے کی تمنا: ایک عظیم محبت کی داستان”
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“اقْضُوا كَمَا كُنْتُمْ تَقْضُونَ فَإِنِّي أَكْرَهُ الِاخْتِلَافَ حَتَّى يَكُونَ لِلنَّاسِ جَمَاعَةٌ أَوْ أَمُوتَ كَمَا مَاتَ أَصْحَابِي فَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ يَرَى أَنَّ عَامَّةَ مَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ الْكَذِبُ” [صحیح البخاري: 3707]

“(اہل عراق! امہات الاولاد کی آزادی کے بارے میں)آپ جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کیجئے، میں اس مسئلہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف نہیں کر سکتا ہوں، چاہتا ہوں کہ وحدتِ اُمت قائم رہے اور میں خلفائے ثلاثہ کے طریقے پر فوت ہوجاؤں۔ ابن سیرین کہا کرتے تھے کہ عام لوگ ( روافض ) جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایات ( شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعاً جھوٹی ہیں”

(7) “سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں”:
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:

أَلا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ هذه الأمَّةِ بَعْدَ نَبِیِّها ؟ أَبُو بَکْرٍ. ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ هذِه الْأمَّةِ بَعْدَ أَبِي بَکْرٍ؟ عُمَرُ. [زوائد مسند الامام احمد :1، 106، 110، و سندہ حسن والحدیث صحیح متواتر]

«میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے بہترین شخص کے بارے میں خبر نہ دوں؟ وہ ابو بکر ہیں، پھر فرمایا: کیا میں سیدنا ابوبکر کے بعد اُمت کے بہترین شخص کے بارے میں نہ بتاوں؟ وہ سیدنا عمر ہیں»

حافظ ذہبی کھتے ہیں:

وَقَالَ عَلِي: خَیْرُ هٰذِهِ الْأمَّةِ بَعْدَ نَبِیِّهَا أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، هٰذَا والله الْعَظِیْمِ قَالَه عَلِي وَهُوَ مُتَوَاتِر عَنْه؛ لأِنَّه قَالَه عَلٰى مِنْبَرِ الْکُوْفَةِ فَلَعَنَ الله الرَّافِضَةَ مَا أَجْهَلَهُمْ؟[سیر اعلام النبلاء: 15؍ 28]

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین شخص ابوبکر و عمر ہیں، اللّٰہ العظیم کی قسم! یہ بات علی رضی اللہ عنہ سے تواتر کے ساتھ منقول ہے، اُنہوں نے یہ بات کوفہ کے منبر پر کہی تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ رافضیوں پر لعنت کرے!وہ کتنے جاہل ہیں۔»

(8) “سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دفاع میں حسن و حسین کا پہرا: اخوت و محبت کی مثالی تصویر”:
سیدنا علی رضی نے اپنے صاحبزادگان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ حضرت عثمان کے دروازے پر پہرہ دیں، بلکہ حضرت حسن تو مزاحمت کرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے۔ [الطبقات لابن سعد]

(9) ” سیدنا عمر اور سیدنا علی کا مضبوط رشتہ مجلس شوریٰ میں سیدنا علی کا انتخاب”
عمرو بن میمون الاودی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ فَقُلْ:‏‏‏‏ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَقْبَلَ،‏‏‏‏ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا لَدَيْكَ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلِّمُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْ:‏‏‏‏ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنِ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، ‏‏‏‏‏‏فَسَمَّى عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَطَلْحَةَ،‏‏‏‏ وَالزُّبَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنَ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ” [صحيح البخاري : 1392]

«میری موجودگی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر ؓ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر ؓ واپس آئے تو عمر ؓ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیر المؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر ؓ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھا کرلے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امر خلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں ، خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیر المؤمنین آپ کو بشارت ہو، اللہ عزوجل کی طرف سے، آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ عمر ؓ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاو رکھے، ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاو رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کر لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے»

(10) “سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا رشتہ: محبت، تعاون اور مشورے کی مثال”
ابو ظبیان الجنبی فرماتے ہیں کہ:

“أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ زَنَتْ فَأَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَذَهَبُوا بِهَا لِيَرْجُمُوهَا فَلَقِيَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ ؟ قَالُوا : زَنَتْ فَأَمَرَ عُمَرُ بِرَجْمِهَا. فَانْتَزَعَهَا عَلِيٌّ مِنْ أَيْدِيهِمْ وَرَدَّهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: مَا رَدَّكُمْ؟ قَالُوا: رَدَّنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ: مَا فَعَلَ هَذَا عَلِيٌّ إِلَّا لِشَيْءٍ قَدْ عَلِمَهُ. فَأَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ فَجَاءَ وَهُوَ شِبْهُ الْمُغْضَبِ، فَقَالَ: مَا لَكَ رَدَدْتَ هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ : عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبَرَ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَعْقِلَ “. قَالَ : بَلَى. قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَإِنَّ هَذِهِ مُبْتَلَاةُ بَنِي فُلَانٍ، فَلَعَلَّهُ أَتَاهَا وَهُوَ بِهَا. فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَدْرِي. قَالَ: وَأَنَا لَا أَدْرِي. فَلَمْ يَرْجُمْهَا” [مسند أحمد: 1328]

«ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک عورت لائی گئی، جس نے بدکاری کی تھی، جرم ثابت ہو جانے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا، لوگ اسے رجم کرنے کے لئے لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اس نے بدکاری کی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیا اور ان لوگوں کو واپس بھیج دیا، وہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آگئے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واپس بھیجا ہے، فرمایا علی رضی اللہ عنہ نے یہ کام یوں ہی نہیں کیا ہوگا، انہیں ضرور اس کے متعلق کچھ علم ہوگا چناچہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو کچھ ناراض سے محسوس ہو رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے لوگوں کو واپس بھیجنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہوتے ہیں، سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہوجائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے اور دیوانہ جب تک اس کی عقل واپس نہ آجائے؟ فرمایا کیوں نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ عورت فلاں قبیلے کی دیوانی عورت ہے ، ہوسکتا ہے کہ جس شخص نے اس سے بدکاری کی ہے، اس وقت یہ اپنے ہوش میں نہ ہو اور دیوانی ہو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بھائی! مجھے تو نہیں پتہ، انہوں نے کہا کہ پھر مجھے بھی نہیں پتہ، تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر اس پر حد رجم جاری نہیں فرمائی»

(11) کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلفاء ثلاثہ کے پیچھے نمازیں پڑھی تھی؟

سوال اکثر روافض کی طرف سے یہ ہوتا ہے کہ کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلفاء ثلاثہ کے پیچھے نمازیں نماز پڑھی تھی؟
ہمارا عقیدہ و ایمان ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہ کو اپنا مقتدیٰ سمجھتے تھے، ان کے وزیر و مشیر رہے ہیں، ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے تھے، ان سے محبت و الفت رکھتے تھے، جیسا کہ ہم نے اوپر دلائل سے ثابت کیا ہے، ان کو اپنے مشوروں سے نوازتے تھے، وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل کرتے تھے۔
باقی اس سوال کا جواب رافضی یوں دیتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ نے خلفاء ثلاثہ کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھی تھی، پھر ان کی طرف سے کوئی مسند صحیح روایت پیش نہیں کی جاتی ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ سوائے یہ کہ ان کی کتابوں میں جو عداوت صحابہ کی جھاگ ہے۔

یہاں ایک حوالہ شیعہ کتب سے ذکر کرتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نہ پانچ وقت کی نماز مسجد میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھتے رہے، ان کی امامت پر بصد احترام مطمئن تھے اور لوگوں کے سامنے ہمیشہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اتفاق اور محبت کا اظہار کرتے رہے۔
[الشيعه و اهل البيت، ص: 82]

روافض سے چند ایک سوال!

پہلا سوال:
ہم بہت ہی سادہ الفاظ میں کہتے ہیں:
ہمیں یہ روافض دلیل دیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟

دوسرا سوال:
فرض کریں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تینوں خلفاء کے پیچھے بیس سے زائد سالوں تک نماز نہیں پڑھی ہے ، تو ان کے لیے کیا یہ زیادہ آسان ہوتا کہ وہ اتنے سالوں تک مسلمانوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھیں گے ؟ یا وہ کسی دوسرے علاقے میں جاکر وہاں مسلمانوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں گے ؟

تیسرا سوال:
آپ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تقیہ کے تحت نماز پڑھتے تھے ، کبھی یہ کرتے ہیں اور کبھی وہ کرتے ہیں ۔ بہت طویل باتیں ہوئی ہیں ، کبھی ایسا اور کبھی ویسا ۔
اور تاریخ میں یہ نہیں آیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز چھوڑ دی ہو ، یہ بات ایک اہم حقیقت ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ کتابوں میں درج ہوتا ۔ اور یہ وہ اصل ہے جس کی ہمیں تلاش ہے ، روافض کو اس اصل کے خلاف دلیل لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور یہ مطالبہ واضح اور قطعی دلیل کے ساتھ ہونا چاہیے ۔

چوتھا سوال:
فرض کریں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اکیلے نماز پڑھتے تھے، تو کیا روافض آج ان کے پیروکار ہیں؟ اگر روافض ان کے پیروکار ہیں تو کیا وہ قرآن کو اسی طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ سیدنا عثمان نے جمع کیا تھا؟ یا سیدنا ابو بکر کے زمانے میں تھا؟
اگر روافض ایسا کرتے ہیں تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان سے موالات نہیں رکھتے؟
اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا روافض آج سیدنا علی کے قرآن کے مطابق نماز پڑھتے ہیں یا وہ قرآن جو سیدنا عثمان نے جمع کیا؟

پانچواں سوال:
اگر سیدنا علی رضی اللہ کسی اور جگہ نماز پڑھ رہے تھے تو وہ جگہ مسجد نبوی نہیں ہے، تو پھر کہاں پڑھتے تھے؟

آج کل روافض کی طرف سے یہ بہت پروپگنڈا چل رہا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہ کو ظالم اور غاصب سمجھتے تھے، یہ جملہ بڑا جھوٹ، حقائق سے بغاوت اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر بہتان ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جیسا کہ دلائل سے ہم نے واضح کیا ہے۔

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: نبی کریم ﷺ کی بچوں سے محبت بھری مثالیں