“سیدنا علیؓ کو تمام انبیاء کرام سے افضل قرار دینا”
‘ ایک سنگین عقیدہ اور اس کا ردّ ‘

اسلام کی بنیاد قرآن، سنت، اجماعِ امت اور صحابہ کرام کے فہم پر ہے۔ اس دین میں عقیدہ، عبادات، فضائل، افضلیت اور مقامات کے تعین کا معیار وحی الٰہی ہے، نہ کہ ذاتی جذبات یا گروہی تعصبات۔
آج کے دور میں بعض اہلِ تشیع بالخصوص نام نہاد شہنشاہ حسین نقوی جیسے جاہل لوگ ایسی گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف دینِ اسلام کے مسلمہ عقائد کے منافی ہے بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں کھلی گستاخی پر مبنی ہوتی ہے۔حالیہ دنوں شہر پشاور میں ایک مجلس کے دوران بے شمار گستاخیاں کیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ ان کا یہ کہنا کہ:
“سیدنا علیؓ تمام انبیاء کرام سے افضل ہیں، سوائے نبی اکرم ﷺ کے”
یہ محض جذباتی نہیں بلکہ عقائدی انحراف ہے، جس پر خاموشی اختیار کرنا گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔

1. فضلیتِ انبیاء علیہم السلام:
قرآن کریم کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو چن کر انسانوں پر برگزیدہ فرمایا:

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ

“اللہ چنتا ہے فرشتوں میں سے بھی پیغمبر اور انسانوں میں سے بھی.” (سورہ الحج: 75)
انبیاء کرام کی افضلیت اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے تحت ہے، کوئی بشر، ولی، صحابی یا امام ان کی برابری تو کیا، ان کے مرتبے تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔

2. نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات:
حضرت رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود فرمایا:

“لا تُفَضِّلُوني عَلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى”

“مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو۔”
(صحیح بخاری: 3411)
یہ تواضع دراصل ادبِ نبوت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے، اور آپ ﷺ کی سنت بھی یہی ہے کہ انبیاء کی شان میں کوئی افراط و تفریط نہ ہو۔

3. سیدنا علیؓ خود انبیاء کرام کی افضلیت کے قائل تھے:
سیدنا علیؓ نہ صرف نبی کریم ﷺ کے سچے محب و پیروکار تھے بلکہ تمام انبیاءِ کرام کے احترام کے قائل تھے۔ کبھی انہوں نے اپنی زبان سے اس طرح کا کلام نہ فرمایا جو شہنشاہ نقوی یا دیگر غالی رافضی کہتے ہیں۔

4. اجماعِ امت اور عقیدہ اہلسنت:
اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے:
انبیاء کرام علیہم السلام کا درجہ تمام انسانوں، صحابہ، اولیاء اور اہل بیت سے بالا ہے۔
انبیاء کرام معصوم عن الخطا ہوتے ہیں، جبکہ غیر نبی معصوم نہیں۔
سیدنا علیؓ افضل ترین شخصیت ضرور ہیں، مگر وہ کسی نبی سے افضل نہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“كل مسلم يعلم أن النبي أفضل من علي، ولا يجوز أن يساويه أحد من الصحابة فضلاً عن أن يتقدمه.”
(منہاج السنۃ النبویہ)

“ہر مسلمان جانتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سیدنا علی سے افضل ہیں، اور کسی صحابی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ نبی کریم ﷺکے برابر ہو، چہ جائیکہ وہ ان سے آگے بڑھے۔”

5. رافضی عقیدے کا اصل چہرہ:
شیعہ مذہب کے بعض غالی فرقے (خصوصاً غُلاتِ شیعہ) اہل بیت کو خدا کے صفات سے بھی بلند مقام دینے لگے ہیں۔ ان کے ہاں:
سیدنا علیؓ کو خالق و رازق جیسی صفات دی جاتی ہیں۔
امامت کو نبوت سے اعلیٰ مقام باور کروایا جاتا ہے۔
اور بعض مقامات پر سیدنا علیؓ کو “نورِ ازلی” یا “مجسمِ خدا” تک کہا جاتا ہے۔ نعوذباللہ من ذالک
یہ عقیدہ نہ صرف شرک و کفر کی سرحد پر ہے بلکہ صریح گستاخی انبیاء کرام ہے، جس پر سخت رد اور توبہ لازم ہے۔
سیدنا علیؓ سے محبت ایمان کا جز ہے، لیکن محبت میں غلو کرنا اور انبیاء کرام سے افضلیت دینا محبت نہیں، گستاخی ہے۔ شہنشاہ نقوی جیسے افراد اگر اس عقیدے پر اصرار کریں، تو یہ ملت اسلامیہ کے عقائد پر کھلا حملہ ہے، جس پر انکار، تردید اور تحذیر ضروری ہے۔

اللّٰھم اجعلنا من الذین یحبون علیًا حبًا شرعیًا، ویعظمون الأنبیاء تعظیمًا حقیقیًا
آمین یارب العالمـــین

یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:اصلاح امت کے لیے قرآن کا انداز بیان