سوال (5017)

سیدنا عمر کا سیدہ فاطمہ کا گھر جلانا اور دروازہ ان پر گرانے والی حدیث کی کیا وضاحت ہے۔ مصنف ابنِ ابی شیبہ والی روایت کو صحیح کہا گیا ہے؟

جواب

جی شرعی خلیفہ کی سو فیصد اطاعتِ کروانا مقصود تھا بس تو تنبیھا ایسا کہا بس
لوگوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا گھر جلایا یہ بات ثابت نہیں۔
[مصنف ابن ابی شیبہ: 38199]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عْن أَبِیهِ أَسْلَمَ؛ أَنَّهُ حِینَ بُویِعَ لأَبِی بَکْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، کَانَ عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ یَدْخُلاَنِ عَلَی فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیُشَاوِرُونَهَا وَیَرْتَجِعُونَ فِی أَمْرِهِمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی فَاطِمَهَ، فَقَالَ: یَا بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَاللهِ مَا مِنَ الْخَلْقِ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیْنَا مِنْ أَبِیک، وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَیْنَا بَعْدَ أَبِیک مِنْک، وَأَیْمُ اللهِ، مَا ذَاکَ بِمَانِعِیَّ إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلاَئِ النَّفَرُ عِنْدَکِ، أَنْ آمُرَ بِهِمْ أَنْ یُحَرَّقَ عَلَیْهِمُ الْبَیْتُ۔ قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوهَا، فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَائَنِی، وَقَدْ حَلَفَ بِاللهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَیُحَرِّقَنَّ عَلَیْکُمُ الْبَیْتَ، وَأَیْمُ اللهِ، لَیَمْضِیَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَیْهِ، فَانْصَرِفُوا رَاشِدِینَ، فَرُوْا رَأْیَکُمْ، وَلاَ تَرْجِعُوا إِلَیَّ، فَانْصَرَفُوا عنها، فَلَمْ یَرْجِعُوا إِلَیْهَا، حَتَّی بَایَعُوا لأَبِی بَکْرٍ۔

حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (کی وفات) کے بعد جب حضرت ابوبکر کی بیعت کی گئی تو حضرت علی اور حضرت زبیر، رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کے ہاں آنے جانے لگے اور ان سے مشاورت کرنے لگے اور اپنے معاملہ (خلافت) میں ان سے تقاضا کرنے لگے۔ پس جب یہ بات حضرت عمر بن خطاب کو پہنچی تو آپ نکل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ حضرت فاطمہ کے ہاں داخل ہوئے اور فرمایا: اے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی! خدا کی قسم! تمام مخلوق میں ہمیں تمہارے والد سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔ اور آپ کے بعد والد کے بعد ہمیں آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔ خدا کی قسم! (لیکن) اگر یہ آپ کے پاس (دوبارہ) جمع ہوئے تو مجھے یہ (محبت والی) بات اس سے مانع نہیں ہوگی کہ میں لوگوں کو حکم دوں اور ان تمام (گھر میں موجود) افراد پر گھر کو جلا دیا جائے۔ راوی کہتے ہیں: پس جب حضرت عمر باہر چلے گئے تو یہ حضرات بی بی فاطمہ کے پاس آئے۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ حضرت عمر میرے پاس آئے تھے۔ اور انھوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا ہے کہ اگر تم لوگ دوبارہ جمع ہوئے تو وہ ضرور بالضرور تمہیں گھر میں جلا دیں گے۔ اور خدا کی قسم! حضرت عمر نے جو کہا ہے وہ اس کو ضرور پورا کریں گے۔ پس تم لوگ اچھی حالت میں ہی واپس چلے جاؤ۔ اور اپنی رائے کو دیکھ لو۔ میری طرف واپس نہ آنا چنانچہ لوگ وہاں سے واپس ہوگئے اور جب تک ان لوگوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی یہ (فاطمہ کے پاس) واپس نہیں آئے۔
اس واقعہ کو بیان کرنے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم ہیں۔ جوکہ اس واقعہ کے شاہد نہیں۔ ان کو اس واقعہ کی خبر کس نے دی یہ مبہم ہے۔ لہذا سند منقطع و مرسل ہے۔
(اس حوالے سے بعض اہل علم کے الگ سے مفصل مضمون بھی موجود ہیں۔[سندہ، ضعیف]
تنبیہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنھا کا گھر جلانے والا قصہ بھی جھوٹا ہے اور آپ رضی اللہ عنھا کے حمل ضائع کرنے والا قصہ بھی جھوٹا مرود ہے۔

غیرثابت۔ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

یہ روایت بظاہر صحیح ہے مگر معلول و مرسل ہے، پہلی بات کہ متن میں نکارت ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی الله جیسے عظیم الشان جلیل القدر صحابی ایسا کیسے کہہ سکتے تھے یہ تو آپ کی شان وعدالت کے لائق ہی نہیں کہ آپ ایسا کہیں وہ بھی بنت رسول مکرم صلی الله عليه وسلم اور سیدنا علی رضی الله عنه کی زوجہ سیدۃ نساء اھل الجنۃ کے بارے میں.
دوسری بات عبیداللہ کا اصحاب زید بن اسلم سے اس روایت کو بیان کرنے میں تفرد ہے ان کے سوا امام ثوری، امام مالک وغیرہ کہاں ہیں جو اس واقعہ کو بیان نہیں کرتے ہیں یہ بھی ایک قرینہ ہے اس کے معلول ہونے کا.
تیسری بات مرسل و منقطع ہے۔
تابعی اسلم 11 ہجری میں سیدنا عمر بن خطاب کے غلام بنے جب انہیں سیدنا ابو بکر نے 11 ہجری میں امیر حج بنا کر بھیجا تو آپ نے اسی سال اشعریوں سے مولی اسلم کو خریدا.
دلیل:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺷﻌﻴﺐ اﻟﺤﺮاﻧﻲ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﻨﻔﻴﻠﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺑﻌﺚ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ – ﻛﻤﺎ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺳﻨﺔ ﺇﺣﺪﻯ ﻋﺸﺮﺓ ﺇﻟﻰ اﻟﺤﺠﺔ، ﻓﺄﻗﺎﻡ ﻟﻠﻨﺎﺱ اﻟﺤﺞ، ﻭاﺑﺘﺎﻉ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ اﻟﺴﻨﺔ ﻣﻮﻻﻩ ﺃﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﺃﻧﺎﺱ ﻣﻦ اﻷﺷﻌﺮﻳﻴﻦ۔
معرفۃ الصحابہ لأبی نعیم:(868)1/ 255 صحيح

سند کے روات کا تعارف:
(1): امام دارقطنی، ابو بکر البرقانی، امام ابو نعیم الاصبھانی وغیرہ کے استاد ابو علی محمد بن احمد بن حسن بن اسحاق بن ابراہیم بن عبدالله البغدادی المعروف بابن الصواف ثقہ مامون ہیں۔
دیکھیے تاریخ بغداد :2/ 115(90)،المنتظم لابن الجوزی :14/ 203، 204(2689) اور دیکھیے التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید:(19)
حافظ ذہبی نے کہا: المحدث، الحجة( العبر فى خبر من غبر:2/ 104
اور کہا:
اﻟﺸﻴﺦ، اﻹﻣﺎﻡ، اﻟﻤﺤﺪﺙ، اﻟﺜﻘﺔ، اﻟﺤﺠﺔ ۔۔۔
سیر اعلام النبلاء:16/ 184
(2) ابو شعیب عبدالله بن حسن بن احمد الحرانی ثقہ، صدوق راوی ہیں۔
تفصیل دیکھیئے تاریخ بغداد:(5005)11/ 94
حافظ ذہبی نے کہا:
اﻟﺸﻴﺦ، اﻟﻤﺤﺪﺙ، اﻟﻤﻌﻤﺮ، اﻟﻤﺆﺩﺏ
سیر اعلام النبلاء:13/ 536
(3) ابو جعفر النفیلی ثقہ، مامون، حافظ ومحدث ہیں۔
دیکھے سیر اعلام النبلاء:10/ 634تا 637 ،تھذیب الکمال:(3545)
(4) ابو عبدالله محمد بن سلمہ الحرانی ثقہ فاضل ہیں۔
دیکھیے تھذیب الکمال:(5255)
(5)محمد بن اسحاق بن یسار روایت حدیث میں صدوق، حسن الحدیث اور سیر میں امام و ثقۃ ہیں ائمہ نقاد نے آپ کی توثیق کی ہے۔
دیکھیے تھذیب الکمال:(5057) وکتب تراجم
(6)نافع مولی ابن عمر ثقۃ، ثبت ہیں۔
دیکھیے تقریب التھذیب:(7086)
(7) سیدنا ابن عمر رضی الله عنه جلیل القدر محدث، امام وفقیہ عالم صحابی ہیں۔
امام ابن حبان نے کہا:

ﻓﻠﻤﺎ ﺩﺧﻞ ﺷﻬﺮ ﺫﻱ اﻟﺤﺠﺔ ﺣﺞ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺳﻨﺔ ﺇﺣﺪﻯ ﻋﺸﺮﺓ ﻭاﺷﺘﺮﻯ ﻣﻮﻻﻩ ﺃﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺣﺠﺘﻪ ﺗﻠﻚ ﺛﻢ ﺭﺟﻊ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺪﻳﻨﺔ
الثقات:2/ 172

ابن اثیر نے کہا:

ﻭﻓﻴﻪ، ﺃﻋﻨﻲ ﺳﻨﺔ ﺇﺣﺪﻯ ﻋﺸﺮﺓ، اﺷﺘﺮﻯ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻣﻮﻻﻩ ﺃﺳﻠﻢ ﺑﻤﻜﺔ ﻣﻦ ﻧﺎﺱ ﻣﻦ اﻷﺷﻌﺮﻳﻴﻦ۔
الکامل فی التاریخ:2/ 200

حافظ ابن کثیر نے کہا:

ﻭﻓﻴﻬﺎ اﺷﺘﺮﻯ ﻋﻤﺮ ﻣﻮﻻﻩ ﺃﺳﻠﻢ ﺛﻢ ﺻﺎﺭ ﻣﻨﻪ ﺃﻥ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺪ ﺳﺎﺩاﺕ اﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ
البدایہ والبھایہ:6/ 389

اب سوال یہ ہے کہ آپ سیدنا ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت میں 11 ہجری کو سفر حج پر گیے اسی سال آپ نے اسلم تابعی کو اشعریوں سے خریدا تو ایک شخص جب ان دنوں مکہ میں تھا مدینہ میں نہیں تھا نہ ہی اسلم کا مدینہ میں خلافت ابو بکر رضی الله عنه سے پہلے یا اس وقت میں ہونا ثابت ہے تو اسلم تابعی نے یہ واقعہ کس سے سنا انہیں یہ خبر کس نے دی۔
دوسرے الفاظ میں اس سارے واقعہ کے وہ عینی شاہد ہی نہیں تھے تو یہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا۔۔۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ