سوال (1556)
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ ، قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قحُطْ فِي زَمَنِ عُمَرَ ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا ، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : انْتِ عُمَرَ فَأَقْرِتُهُ السَّلَامَ ، وَأَخْبِرُهُ أَنَّكُمُ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْكَ الكَيْسُ ، عَلَيْكَ الكَيْسُ ، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَرْت عَنْهُ.مصنف ابن ابی شیبه]
“سیدنا مالک الدار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے شعبہ طعام میں خزانچی تھے ، فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانے میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے ، پس ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہو کر یوں کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! اپنی امت کے لیے پانی طلب کیجئے وہ ہلاک ہو گئی ہے ! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کو خواب میں نظر آئے اور اس سے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ لوگ سیراب ہونے کی جگہ میں ہیں، اور اس سے کہو تم پر دانشمندی لازم ہے۔ تم پر دانشمندی لازم ہے۔ پس وہ آدمی حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عمر کو اس خواب کی خبر دی، تو حضرت عمر رونے لگے” ۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ۔
جواب
یہ حدیث ضعیف ہے ، حدیث کی سند میں جو مالك الدار راوی ہیں ، اس کی عدالت اور ضبط اہل علم کے ہاں معروف نہیں ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جی یہ روایت ضعیف ہے اور قابلِ استدلال نہیں ، اس کی سند میں کئی ایک علتیں موجود ہیں، اس پر عربی زبان میں ایک یمنی عالم دین کا مستقل رسالہ بھی ہے ’تحفۃ الابرار‘ کے نام سے جس میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کرکے اس روایت کا سقم واضح کیا گیا ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ