سوال (2827)

ایک شخص، جو بظاہر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں تنقیدی خیالات رکھتا ہے، یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے کچھ گورنروں، مثلاً حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت حارث بن کعب رضوان اللہ علیہم اجمعین، کی ذاتی املاک کا نصف حصہ ضبط کیا تھا، کیونکہ حضرت عمر کے خیال میں یہ اموال ان گورنروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے حاصل کیے تھے۔
یہ شخص مزید کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس ضبطی کا اقدام سرکاری ملازمین کی بد عنوانیوں کے سد باب کے لیے کیا تھا۔یہ شخص مزید کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنیاد یعنی بد عنوانی کے سدباب کے لیے حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابوموسی اشعری، حضرت ابوہریرہ اور حضرت حارث رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اموال کو ضبط کیا تھا۔
سوال یہ ہےکہ کیا واقعی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اموال کو اس بنیاد پر ضبط کیا تھا کہ وہ بد عنوانی میں ملوث تھے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف مالی بد عنوانی کی نسبت کرنا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟
کیا اس عقیدے کو رکھنے والے شخص کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا کوئی خاص موقف ہے؟ اس شخص کے لیے شرعی حکم کیا ہوگا؟

جواب

آپ اس حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے تین کتابیں مطالعہ کر سکتے ہیں:
1۔مقام صحابہ
2۔مشاجرات صحابہ
یہ دونوں مختصر ہیں اور مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ان کے مصنف ہیں۔ اس میں صحابہ کرام کے مقام و مرتبہ اور ان کے متعلق ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہیے، ان بنیادی امور کی وضاحت ہے۔
3۔ خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت
یہ کتاب مفصل ہے، مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اس کے مصنف ہیں، آپ نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے، اس میں اس قسم کے واقعات پر تفصیلی تبصرہ موجود ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

بارك الله فيكم و عافاكم
معترض کو چاہیے کہ سب سے پہلے یہ بد عنوانی والی بات باسند صحیح ثابت کریں، دوم صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر اعتراض کا حق اسے کس نے دیا ہے، آیا قرآن نے یا حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے؟
کیا الله تعالى نے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر کوئی منفی تبصرہ کیا ہے؟
کیا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے بارے کوئی منفی تبصرہ کیا ہے؟
قرآن کریم میں صرف صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی مدح و تعریف ایمان و تقویٰ ان کے باکمال ، بے مثال اوصاف و عظمت کا ذکر ہوا ہے۔
قرآن کریم ہمیں یہ خبر دیتا ہے۔

“وَ لَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ”

اور لیکن الله نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
[سورۃ الحجرات : 7]
الله تبارک وتعالی کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے لیے
(1) : ایمان کو محبوب بنا دیا گیا تھا اور ان کے دلوں میں اسے مزین کر دیا گیا تھا سو وہ ایمان کے منافی عمل نہیں کبھی کر سکتے ہیں۔
(2) : الله تبارک وتعالی کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین عادل و ثقہ تھے۔
(3) : الله تبارک و تعالى نے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے کفر کو ناپسندیدہ بنا دیا تھا۔
(4) : الله تبارک وتعالی نے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے لیے گناہ اور نافرمانی کو ناپسندیدہ بنا دیا تھا، لہذا انہوں نے کوئی خلاف شرع کام ہرگز نہیں کیا ہے نہ ہی ان سے کوئی عمدا و ارادتا کوئی گناہ سرزد ہوا ہے اس پر دلیل الله تبارک وتعالی کا یہ فرمان مبارک ہے۔
(5) : صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین الله تبارک وتعالی کی طرف سے ہدایت والے قرار پا چکے ہیں لہزا ان پر اعتراض و نقد کرنا رب العالمین کے اس صریح فرمان پر اعتراض و نقد ہے اور اس آیت کا انکار ہے۔
صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کو تو رب العالمین کی رضا مل چکی ہے قرآن کریم میں کئ مقامات پر اس کی صراحت موجود ہے، تو معترضین خود کا سوچیں کہ وہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے مقابل کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ وہ رب العالمین کے نزدیک کیا مقام رکھتے ہیں؟ قیامت کے دن وہ جب عدالت صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم پر اعتراض و نقد کرنے پر کڑا احتساب فرمائیں گے تو تب یہ کیا جواب دیں گے اور کیسے راہ نجات پائیں گے؟
اگر معترض قرآن کریم کی اس آیت پر بالخصوص اور دیگر قرآن کریم کی سینکڑوں آیات پر اور صحیح احادیث پر ایمان رکھتا ہے تو پھر صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم یا ان کے بعض پر اس طرح کے فضول اعتراض کیوں کرتا ہے جس سے ہمارے دین وایمان کو کچھ فائدہ نہیں ملنے والا سوائے تباہی و خسارے کے ملنے کے؟
درحقیقت صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر اعتراض قرآن وحدیث پر اعتراض ہے، درحقیقت صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی عدالت پر عدم اعتماد رب العالمین کی گواہی وارشاد پر عدم اعتماد ہے، بغض صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین درحقیقت بغض رب العالمین ہے، منکرین صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین درحقیقت منکرین اسلام ہیں، منکرین صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین درحقیقت منکرین ختم نبوت ہیں، تو محترم و مکرم حافظ خضر حیات صاحب نے جو راہنمائی کی ہے اس کے ساتھ اس طالب علم کی یہ گزارشات بھی تحفہ کے طور پر قبول کریں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ