سوال (2072)
سیدنا حسین، سیدنا حسن اور سیدنا علی رضی اللہ عنھم کو “سلام اللہ علیھم” یا “علیھم السلام” کہنا درست ہے؟
جواب
اس کو اہل تشیع کی طرف سے رواج دیا گیا ہے، جب حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کا تذکرہ آتا ہے تو وہ علیھم السلام یا سلام اللہ علیھم پڑھتے ہیں، یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا نام آتا ہے تو علیھا السلام پڑھتے ہیں، ہمارے اہل علم کہتے ہیں کہ اس کا ترک اولی ہے، جہاں جہاں اس کا استعمال ہوا ہے، وہاں اس کو استعمال کرنا چاہیے، اگر عمومی ادلہ کی وجہ سےاصرار ہے تو پھر یہ سب کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ شیخین کریمین ، سیدنا عثمان، دیگر صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
شیخ کہتے ہیں کہ بخاری شریف اور دیگر کتب میں باقاعدہ سیدنا علی اور شاید حسنین کریمین کے نام کے بعد “علیہ السلام” لکھا جاتا تھا، اسے حذف کر دیا گیا ہے۔
جواب:
قلمی نسخوں میں سے بعض نسخوں میں اس طرح آیا ہے ، نسخ جو نقل کرنے والے ہیں ، ان کی طرف سے سہو و نسیان ہوا ہے یا کوئی شرارت ہوئی ہے ، اس کو اہل علم نے نساخ کی طرف سے غلطی قرار دیا ہے ، معتمد علیہ جو نسخ ہیں ، ان میں یہ چیز نہیں پائی جاتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل :
کیا شیعہ حضرات اہل بیت کو انبیاء کی طرح معصوم قرار دیتے ہوئے علیہ السلام کہتے ہیں؟
جواب:
ان کے ہاں امامت اس کو ملتی ہے جو معصوم ہوتا ہے، انہوں نے یہ خود ساختہ شریعت بنا رکھی ہے کہ ائمہ معصوم ہوتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حضرات اہل بیت معصوم نہیں ہیں، یہ ان کا باطل عقیدہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
اہل سنت کا اتفاقی نظریہ ہے کہ عصمت کا اعزاز صرف اللہ کے انبیاء کو ہی حاصل ہے، جن کی اللہ نے ضمانت لی ہے، جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے
[وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى o اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى]
یہ اعزاز انبیاء کے علاوہ کسی اور انسان کے لیے نہیں ہے، یہاں تک کہ اس امت کے بعد النبی علیہ السلام افضل ترین انسان ابوبکر صدیق، ان کے بعد عمر فاروق اور ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی اجتہادی خطائیں سرزد ہوئی تھیں، ہم انہیں معصوم عن الخطا نہیں تصور کرتے ہیں۔
ائمہ اہل بیت عظیم انسان تھے، انہوں نے اس طرح کے نظریات بالکل بیان نہیں کیے ہیں، یہ روافض نے گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دیے ہیں۔
عقیدہ عصمت شیعہ کا اجماعی عقیدہ ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے مقرر کردہ ائمہ اہل بیت ہر قسم کی اجتہادی و غیر اجتہادی خطاؤں سے معصوم ہیں ان سے بھول وغیرہ نہیں ہو سکتی ہے، شیعہ کی مشہور عقیدہ کی کتاب’’ العقائد الامامیہ ‘‘میں ہے:
“ونعتقد أن الإمام كالنبي يجب أن يكون معصوماً من جميع الرذائل ما ظهر منها وما بطن كما يجب أن يكون معصوماً من السهو والخطأ والنسيان لأن الأئمة حفظة الشرع والقوامون عليه حالهم في ذلك حال النبي”
[العقائد الإمامية ص: 51]
ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام بھی نبی کی طرح ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ معصوم ہو، تمام ظاہری و باطنی بری خصلتوں سے پاک ہو، اسی طرح ضروری ہےکہ وہ بھول، غلطی اور نسیان سے معصوم ہو ، کیونکہ ائمہ شریعت کے محافظ اور جو شریعت کے نگران ہوں ان کا حال اس مسئلہ میں نبی جیسا ہے۔
علامہ باقر مجلسی لکھتے ہیں:
“جملة القول فيه أن أصحابنا الإمامية أجمعوا على عصمة الأنبياء والأئمة صلوات الله عليهم من الذنوب الصغيرة والكبيرة عمدا وخطا ونسيانا قبل النبوة والإمامة و بعدهما بل من وقت ولادتهم إلى أن يلقوا الله تعالى”
[بحار الأنوار للمجلسي الجزء: 25 ص: 350]
“خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے امامیہ ( شیعہ) متفق ہیں کہ انبیاء اور ائمہ صلوات اللہ علیھم جانے انجانے میں چھوٹے بڑے گناہوں اور بھول سے پاک ہیں نبوت اور امامت سے پہلے اور بعد میں بلکہ پیدائش کے وقت سے لے کر اللہ سے ملاقات (وفات)تک”
لیکن ایک اصول یاد رکھیں کلام معصوم وہ ہوتا ہے، جس میں حقیقی طور پر کوئی ٹکراؤ اور تضاد نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
“اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا” [نساء: 82]
“کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے”
معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین میں ٹکراؤ نہیں ہوتا ہے، جبکہ عصمت ائمہ کے عقیدے کے قائلین کا حال یہ ہے کہ ایک ہی کتاب کے اندر اس عقیدے کو ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ائمہ تمام غلطیوں ، بھول، اجتہادی خطا اور فتوی میں خطا کرنے سے معصوم ہیں، لیکن اسی کتاب میں ہزاروں جگہوں پر اس اصول کو توڑ دیتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول رہا ہے کہ کلام باطل کے متکلم سے ایسی چیزیں جاری کروا دیتا ہے، جس سے حق کے متلاشی کے لیے حق سمجھنا اور باطل کو پرکھنا آسان ہو جاتا ہے۔
عقیدہ عصمت کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ أئمہ اہل بیت کے فتاواجات کے بیچ میں بہت بڑا ٹکراؤ پایا جاتا ہے ، جس میں تطبیق کی صورت نا ممکن ہے یہ واضح دلیل ہے کہ وہ معصوم نہیں ہیں۔
شیعہ عالم دلدار علي لکھتے ہیں:
“إن الأحاديث المأثورة عن الأئمة مختلفة جدا لا يكاد يوجد حديث إلا وفي مقابله ما ينافيه و لا يتفق خبر إلا وبإزائه ما يضاده حتى صار ذلك سببا لرجوع بعض الناقصين عن اعتقاد الحق”۔[أساس الأصول ص: 51]
«ائمہ سے منقول احادیث کے اندر بہت ہی بڑا اختلاف ہے، آپ نہیں پائیں گے کوئی ایک حدیث مگر یہ کہ اس کے مقابلے میں دوسری حدیث ہوگی، آپ نہیں دیکھیں گے، کوئی ایک خبر مگر اس کے مقابلے اور تضاد میں دوسری خبر ہوگی یہاں تک یہ بات رجوع کا سبب بن گئی اعتقاد حق سے، بعض ناقصین کے لیے۔
شیعہ عالم علامہ طوسي لکھتے ہیں کہ:
ذاكرني بعض الأصدقاء بأحاديث أصحابنا وما وقع فيها من الاختلاف والتباين والتضاد حتى لا يكاد يسلم خبر إلا وبإزائه ما يضاده ولا يسلم حديث إلا وفي مقابله ما ينافيه حتى جعل مخالفونا ذلك من أعظم الطعون على مذهبنا [تهذيب الأحكام ، للشيخ الطوسي، ج 1، الصفحة2]
بعض دوستوں نے میرے ساتھ ہمارے اصحاب کی ان احادیث کے بارے میں مذاکرہ کیا ہے، جن کے اندر اختلاف اور تضاد واقع ہوا ہے، یہاں تک کہ ایک خبر بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے مقابلے اور تضاد میں دوسری خبر نہ ہو اور ایک بھی حدیث اس طرح صحیح سالم نہیں ہے ہے کہ اس کے مقابلے اور ٹکراؤ میں دوسری حدیث نہ ہو یہاں تک اس بات کی وجہ سےہمارے مخالفین نے ہمارے مذہب پر سب سے بڑا طعن کیا ہے۔
آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب ائمہ کی خبروں کے اندر اتنا بڑا ٹکڑاؤ ہے کہ شیعہ علماء کے بقول شاید کوئی ایک خبر بھی اس ٹکراؤ سے محفوظ نہ ہو تو سارے امام معصوم عن الخطا کیسے ہوئے؟
ٹکراؤ کی صورت میں ایک صحیح ہوتا ہے اور ایک غلط، تعجب کی بات ہے کہ صحیح بھی معصوم عن الخطا اور غلطی کرنے والا بھی معصوم عن الخطا۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ