سوال (2177)

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شھادت کیسے ہوئی تھی؟ بعض کا کہنا ہے آپ کو زہر دیا گیا تھا، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

جی بالکل سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا، یہ روایت ثابت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: دَخَلْت أَنَا وَرَجُلٌ علَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ نَعُودُہُ، فَجَعَلَ یَقُولُ لِذَلِکَ الرَّجُلِ: سَلْنِی قَبْلَ أَنْ لاَ تَسْأَلنِی، قَالَ: مَا أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَک شَیْئًا، یُعَافِیک اللَّہُ، قَالَ: فَقَامَ فَدَخَلَ الْکَنِیفَ، ثُمَّ خَرَجَ إلَیْنَا، ثُمَّ قَالَ: مَا خَرَجْت إلَیْکُمْ حَتَّی لَفَظْت طَائِفَۃً مِنْ کَبِدِی أُقَلِّبُہَا بِہَذَا الْعُود، وَلَقَدْ سُقِیت السُّمَّ مِرَارًا مَا شَیْئٌ أَشَدُّ مِنْ ہَذِہِ الْمَرَّۃِ، قَالَ: فَغَدَوْنَا عَلَیْہِ مِنَ الْغَدِ فَإِذَا ہُوَ فِی السُّوقِ، قَالَ: وَجَائَ الْحُسَیْنُ فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِہِ، فَقَالَ: یَا أَخِی، مَنْ صَاحِبُک؟ قَالَ: تُرِیدُ قَتْلَہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ کَانَ الَّذِی أَظُنَّ، لَلَّہُ أَشَدُّ نِقْمَۃً، وَإِنْ کَانَ بَرِیئًا فَمَا أُحِبُّ أَنْ یُقْتَلَ بَرِیئٌ

[مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب: غزوات کا بیان، باب: جن حضرات کے نزدیک فتنہ میں نکلنا ناپسندیدہ ہے اور انھوں نے س سے پناہ مانگی ہے، حدیث نمبر: 38513]
حضرت عمیر بن اسحاق سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ میں اور ایک آدمی حضرت حسن بن علی کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے حضرت حسن بن علی اس آدمی سے کہنے لگے مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ تم مجھ سے نہ پوچھ سکو۔ ان صاحب نے کہا میں آپ سے کچھ نہیں پوچھنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت عطا کرے راوی نے فرمایا حضرت حسن کھڑے ہوئے اور بیت الخلاء میں داخل ہوئے پھر ہمارے پاس تشریف لائے پھر ارشاد فرمایا میں تمہاری طرف نہیں نکلا یہاں تک کہ میں نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا پھینکا ہے جس کو اس لکڑی سے الٹ پلٹ رہا ہوں مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا اس مرتبہ سے زیادہ سخت کوئی چیز نہیں تھی حضرت عمیر نے کہا اگلے دن ہم صبح کو ان کے پاس گئے وہ جان کنی کی حالت میں تھے راوی عمیر نے فرمایا حضرت حسین آئے پس ان کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا اے بھائی جان آپ کو زہر دینے والا کون ہے انھوں نے فرمایا تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو انھوں نے فرمایا ہاں حضرت حسن نے فرمایا اگر تو وہی ہے جس کے بارے میں میرا گمان ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دینے والے ہیں اور اگر بری ہے تو میں یہ پسند نہیں کرتا کہ ایک بری آدمی کو قتل کیا جائے۔
[سندہ حسن]
تنبیہ:
روافض کا یہ کہنا کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا یہ جھوٹ ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی روایت ثابت نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم
جی یہ روایت بالکل حسن درجہ کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حسن ابن علی رضی الله عنہ کو کئی بار زہر دیا گیا اور اسی کے سبب آپ رضی الله عنہ کا انتقال ہوا تھا۔
مصنف ابن أبي شيبة کے محقق دکتور الشثری صاحب لکھتے ہیں:
عمير بن إسحاق صدوق على الصحيح
[أخرجه الحاكم ٣/ ١٩٣، وأبو نعيم في الحلية ٢/ ٣٨، وأبو العرب في المحن ص ٦٤، وابن عساكر ١٣/ ٢٨٢، وابن سعد كما في الإصابة ٢/ ٧٣، وابن أبي الدنيا في المحتضرين (١٣٢)، وابن عبد البر في الاستيعاب ١/ ٣٩٠، وإبن الجوزي في المنتظم ٥/ ٢٢٥]
میں نے کئی سال پہلے عمیر بن اسحاق پر تحقیق کی تھی تو یہ علی الاقل صدوق حسن الحدیث راوی ہے، مگر احکام کی روایت میں اس کا تفرد قبول نہیں ہے اور تاریخ و آداب وغیرہ میں ایسے راوی کی روایت مقبول درجہ کی ہے۔
فائدہ:
شیعہ لوگ جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں سیدنا معاویہ رضی الله عنہ نے زہر دیا تھا ، صاف جھوٹ ہے اور اس بارے میں روایات جو بیان کی جاتی ہیں، سب باطل و ضعیف ہیں، پھر اس پر اضافہ یہ کہ یہ جھوٹ اور گھڑی ہوئی روایات شیعہ عقیدہ کے خلاف بھی ہیں کہ ائمہ عالم الغیب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:

“إن الأئمة يعلمون متى يموتون وانهم لا يموتون إلا بإختيارهم”

«بلاشبہ ائمہ جانتے ہیں کہ وہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار سے ہی مرتے ہیں»
[أصول الكافى الكليني:1/ 258 ،الفصول المهمة:ص: 155]
ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے:

“لم يكن إمام إلا مات مقتولا أو مسموما”

کوئی ایک امام نہیں مگر وہ قتل یا زہر کے ذریعے فوت ہوا ہے۔
[بحار الانوار: 43/ 364]
جب ان کا یہ باطل عقیدہ ہے کہ ائمہ غیب جانتے ہیں، انہیں اپنے مرنے تک کا علم اور اختیار ہے تو سیدنا حسن ابن علی رضی الله عنہ کو علم کیوں نہ ہو سکا کہ مجھے متعدد بار زہر دیا گیا ہے؟
اور جسے معلوم ہو اور وہ تب بھی ایسا عمل کر گزرے تو وہ شرعی حیثیت سے کیا کہلائے گا؟
سیدنا حسین ابن علی رضی الله کے بارے بھی ان کے عقیدہ باطلہ کی بنیاد پر یہی سوال ہے۔
سیدنا معاویہ رضی الله عنہ سمیت کسی صحابی یا ثقہ تابعی نے سیدنا حسن ابن علی رضی الله عنہ کو ہرگز زہر نہیں دیا ہے، حق یہ ہے یہ خود پہلے جرم کرتے ہیں پھر اسے چھپانے کے لیے مورد الزام مبارک ہستیوں کو ٹھہراتے ہیں اور ساتھ میں من گھڑت اصول وضع کرتے ہیں اور جھوٹی روایات بناتے ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ