سوال (1951)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امام الانبیاء علیہ السلام نے فرمایا:

لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا وَإِمَامًا مُقْسِطًا، وَلَيَسْلُكُنَّ فَجَا حَاجًا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيَّتِهِمَا، وَلَيَأْتِيَنَ قَبْرِى حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَارُدَّن عَلَيْهِ.[المستدرك على الصحيحين، كتاب تواريخ۔الْمُتَقَدمِينَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ، وَذكر نبي اللهِ وَرُوجحهِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ، رقم 4162، صحيحه الحاكم ووافقه الذهبي]

عیسی بن مریم (علیہ السلام) ضرور عادل حاکم اور منصف پیشوا بن کر نازل ہوں گے، وہ حج، عمرہ یا دونوں کی نیت سے ایک راستہ پہ سفر کریں گے، میرے مزار پر آکر سلام کریں گے اور میں ضرور ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ حدیث بیان کر کے فرماتے: اے میرے بھتیجو ! اگر تمہیں سیدنا عیسی علیہ السلام کی زیارت ہو تو کہنا: ابو ہریرہ آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہیں۔
کیا یہ صحیح حدیث ہے؟

جواب

[السلسلة الضعيفة: ١٤٥٠ • منكر بهذا التمام، أخرجه البزار :٨٤٢٣، والطبري في التفسير: ٧١٤٤، والحاكم: ٤١٦٢ باختلاف يسير]

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

حدیث میں جو باتیں وارد ہوئی ہیں، زیادہ تر صحیح احادیث سے ثابت ہیں، قرب قیامت جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، تو نزول کے بعد آپ کا حج کرنا، عمرہ کرنا، عدل کو عام کرنا، جزیہ کو ختم کرنا اور خنزیر کو قتل کرنا ثابت ہے، جہاں تک سلام کا معاملہ ہے ، اس میں بھی کوئی ابہام اور اشکال نہیں ہے ، لیکن اس حدیث میں بعض علماء نے کلام کیا ہے، یہ جو الفاظ ہیں کہ جو میری قبر پر آکر مجھے سلام کرے گا، میں اس کو جواب دوں گا، یہ الفاظ ضعیف ہیں، اگر یہ الفاظ ضعیف ہیں تو پھر بات ہی ختم ہوگئی، لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحت پر قبول کیا ہے، تو اس وقت سلام سے مراد یہ ہوگا کہ جیسا کہ ہم قبر پر سلام کرتے ہیں، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مجھ پر سلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو لوٹاتا ہے میں سلام کا جواب دیتا ہوں، ضروری نہیں ہے کہ سلام کا جواب سنائی دیتا ہو، اس کی کیفیت ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ