سوال 3426
ایک رافضی کہتا ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے لیے دعا کی تھی کہ عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچا، تو رافضی کہتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے؟
جواب
اللهم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب” سے مراد اگر یہ ہے کہ ادھر اللہ کے نبی علیہ السلام نے دعا کی اور اُدھر فورا پوری دنیا میں اسلام غالب آ گیا جیسا کہ اپ ایک بٹن دبائیں اور پورا گھر روشن ہو جائے!
کوئی بندہ جس کے بھیجے میں دماغ ہو وہ اس دعا سے یہ ہرگز مراد نہیں لے گا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام قبول کرتے ہی پوری دنیا میں اسلام غالب آ جائے!
ابتدائی دور تھا اور فطری بات ہے انہیں اپنی جان کا خطرہ بھی تھا لیکن پھر اس ایک ہی ملاقات میں ان کا یہ خوف بھی دور ہو گیا، یہ طبعی خوف قابل ملامت ہرگز نہیں۔
اگر یہ قابل ملامت ہوتا تو اللہ رب العالمین جناب موسی علیہ السلام کی طرف اس خوف کی نسبت نہیں کرتا.
فخرج منها خائفا يترقب”
البتہ حق تو یہ ہے کہ ابتدا کے چند دن کے بعد ہی صحابہ کرام نے اپنے حق میں قوت محسوس کی اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا کے دور رس نتائج اہل بصیرت نے دیکھے کہ جس طرح اسلام سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں پھیلا اور غالب آیا اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ