سوال (1714)

جب سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس دوسری بار غلہ لینے کے لیے آئے تو ان کے چھوٹے بھائی کے سامان میں پیمانہ رکھ دیا گیا تو کیا یہ پیمانہ یوسف علیہ السلام نے اس نیت سے رکھا تھا کہ بھائی کو چوری کے الزام میں اپنے پاس روک سکیں یا یوسف علیہ السلام نے اس لیے رکھا تھا کہ ان کی مدد کر سکیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بھائی کو روکنے کے لیے چوری والی تدبیر کی گئی اور یوسف اس سے لا علم تھے ۔

جواب

فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ [سورۃ یوسف : 70]

تفسیر القرآن الکریم
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ ۔۔:
ان آیات کی تفسیر میں اکثر لوگوں کو ٹھوکر لگی ہے جس کی وجہ سے وہ یوسف (علیہ السلام) کے ذمے لگاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لیے اس کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا، پھر اس کے سامان میں پیمانہ رکھ کر سب بھائیوں کے متعلق ان کے چور ہونے کا اعلان کروایا، پھر خود ہی تلاشی لی اور آخر میں بھائی کے سامان سے پیمانہ نکال کر اسے چور قرار دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ اس پر جو اعتراض آتا ہے کہ یہ ایک نبی کی شان کے لائق نہیں، اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ ) [ یوسف : ٧٦ ]” اس طرح ہم نے یوسف کے لیے یہ تدبیر کی “ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے کیا، اس لیے یہ جائز تھا اور یہ کہ جائز مقصد کے لیے حیلہ کرنا (خواہ ناجائز ہو) جائز ہے۔ حالانکہ اگر غور سے آیات کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں یوسف (علیہ السلام) کے کسی حیلے یا سازش کا کوئی دخل ہی نہیں، یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تدبیر تھی جس کا پہلے یوسف (علیہ السلام) کو بھی علم نہیں تھا۔ واقعہ کی اصل صورت یہ ہے کہ پہلی دفعہ جب بھائی آئے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان پر احسان کیا اور اپنے جوانوں سے کہہ کر ان کی رقم ان کی بوریوں میں ان کے علم کے بغیر رکھوا دی، جس کا علم انھیں گھر جا کر ہوا۔ اب ان کا سگا بھائی آیا تو انھوں نے اس کی خاص مدد کے لیے خاموشی سے کسی کو بھی بتائے بغیر اس کے سامان میں وہ پیمانہ خود ہی رکھ دیا کہ اس میں وہ مشقت نہ تھی جو دس بھائیوں کا سارا سامان واپس رکھنے میں تھی اور بھائیوں کے علم میں آنے سے حسد کا بھی خطرہ تھا، اس لیے اس چیز سے صرف وہ آگاہ تھے، دوسرا کوئی بھی آگاہ نہ تھا، قافلہ روانہ ہونے سے پہلے گودام کے محافظوں میں سے کسی کو پیمانے کی ضرورت پڑی، جب وہ نہ ملا تو تلاش شروع ہوئی، غور و فکر کیا گیا، کون چور ہوسکتا ہے، یہاں کون کون آیا ہے؟
ان بھائیوں کے سوا وہاں کوئی آیا ہی نہ تھا، اس لیے ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ قافلے والو ! تم چور ہو۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ چنانچہ ان کی آئندہ ساری گفتگو اس اعلان کرنے والے اور اس کے ساتھی گودام کے محافظوں سے ہوئی، جس میں انھوں نے خود ہی چور کی سزا بھی بتادی جو ان کے ہاں رائج تھی، پھر ان محافظوں میں سے ایک نے تلاشی لی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تدبیر ہوئی کہ اس نے اتفاق سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی پڑتال کی، پھر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کے سامان سے وہ پیمانہ نکال لیا اور بھائیوں ہی کی بتائی ہوئی سزا کے مطابق اس بھائی کو روک لیا۔ یوسف (علیہ السلام) اس معاملے سے بالکل بےخبر تھے مگر جب بات یہاں تک پہنچی اور یوسف (علیہ السلام) کو اطلاع ملی تو انھوں نے اسے اللہ کی طرف سے تدبیر سمجھ کر خاموشی اختیار فرمائی، بھائی کے سامان سے مدعا برآمد ہونے کے بعد وہ اس کی صفائی دے بھی نہیں سکتے تھے، ورنہ الزام آتا کہ ایک ثابت شدہ مجرم کی طرف داری اور اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) جیسا شخص تہمت کا نشانہ بننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو انصاری صحابیوں کو بلا کر اپنے پاس کھڑی ہوئی خاتون کے متعلق بتانا کہ یہ صفیہ (میری بیوی) ہے، اس کی دلیل ہے۔ البتہ اپنی زبان سے اس بھائی کو چور بھی نہیں کہا۔ ان کی طبیعت کی پاکیزگی اور صدق کا اندازہ ان کی اس بات سے لگائیے کہ جب بھائیوں نے کہا کہ اس کے والد بہت بوڑھے بزرگ ہیں، آپ اسے جانے دیں اور ہم میں سے کسی کو اس کی جگہ رکھ لیں تو یوسف (علیہ السلام) نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم تو چور ہی کو پکڑیں گے بلکہ فرمایا کہ ہم تو اسی کو پکڑیں گے جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے۔ یہ تفسیر آیات کے بالکل مطابق صاف اور سادہ ہے اور اس میں یوسف (علیہ السلام) پر کوئی اعتراض نہیں آتا، جس کا جواب دینے کی ضرورت ہو۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سائل :
یہ تفسیر میں نے پڑھی ہے لیکن حافظ صاحب رحمه الله رحمة واسعة نے جو تفسیر کی ہے کہ یوسف علیه السلام نے کسی کو بتائے بغیر پیمانہ رکھا ۔ اس میں یہ مسئلہ ہے کہ جب سب موجود تھے سامان کی حفاظت کرنے والے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں معلوم نہ ہوا ہو کہ یہ خود یوسف علیه السلام نے رکھوایا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ یوسف علیہ السلام نے پیمانہ خفیہ رکھا تاکہ کسی کو علم نہ ہو لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ایک چیز جس کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہے اور اگر وہ غائب ہو تو تھوڑی دیر بعد ہی مسئلہ بن جائے گا اور کام رک جائے پھر یوسف علیہ السلام اسے کسی کو بتائے بغیر کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ اگر خفیہ طور پر کوئی چیز رکھنی ہی تھی تو کم از کم ایسی ہوتی جس کی غیر موجودگی میں فوری طور پر کچھ نہ ہوتا ۔
تیسری بات حافظ صاحب نے لکھی کہ بھائیوں کے حسد کا خطرہ تھا اس لیے نہیں بتایا تو کیا جب بھائی واپس پہنچتے تو انہیں اس کی خبر نہ ہوتی تو کیا انہیں پھر حسد نہ ہوتا ؟
ان باتوں کی وجہ سے اشکال ہے اسے واضح کردیں ۔
کیونکہ تفسیر احسن البیان ، تفسیر ابن کثیر ، تسھیل البیان فی تفسیر القرآن ، تفسیر اشرف الحواشی ، تفسیر سعدی مذکورہ تمام تفاسیر میں بھٹوی صاحب رحمه الله کی تفسیر کے برعکس تفسیر ہے ، تفسیر قرطبی میں بھی یہی بات ہے کہ یوسف علیہ السلام نے تدبیر کے طور ان کے سامان میں پیمانہ رکھوایا تھا تاکہ وہ انہیں روک سکیں ۔
جواب :
بعض مفسرین نے بادشاہ کے پانی پینے کا پیالہ ذکر کیا ہے ، لہذا اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تفسیر واضح ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ